مستقبل کے پاکستانی شہری کا تہذیبی و اخلاقی معیار

مستقبل کے پاکستانی شہری کا تہذیبی و اخلاقی معیار

تین ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ جنوب مشرقی یورپ کے ملک یونان میں ایک شہر ایتھنز آباد تھا۔ یہ وہی شہر تھا جہاں سقراط پیدا ہوا جسے ماڈرن فلاسفی کا باپ کہا جاتا ہے۔ یہ وہی شہر تھا جہاں جمہوریت نے جنم لیا جو آج ماڈرن مہذب دنیا کی دلربا لاڈلی ہے۔ یہ وہی شہر تھا جو موجودہ یورپ کی آسمان چھو لینے والی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ وہی شہر تھا جس کی تنظیم اور بہادری سے پورا یونان متاثر تھا اور وہیں سکندر پیدا ہوا جسے تاریخ آج سکندر اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ایتھنز والوں نے ہسٹری میں مقام بنانے کا یہ سفر مضبوط معیشت کی کاغذی کشتی پر طے نہیں کیا بلکہ انہوں نے دنیا میں حقیقی ترقی کا اسمِ اعظم دریافت کیا جو بہت سادہ تھا۔ پرانے ایتھنز والوں نے فیصلہ کیا کہ ہماری تمام تر ڈویلپمنٹ کا مرکز ایتھنز کا شہری ہوگا۔ ہماری سب سرمایہ کاری ایتھنز کے شہری پرہی ہوگی۔ یعنی ریاست اپنے شہریوں کو ذہنی اور جسمانی اعتبار سے بہترین بنائے گی۔ ایتھنز والوں نے یہ جادو سیکھ لیا کہ اگر شہریوں کی اخلاقی رویے اور اقدار کے حوالے سے تربیت آئیڈیلی ہو جائے تو دنیا کے باقی تمام معرکے خودبخود سرہو جائیں گے۔ ’’سقراط کے ساتھ سیاسی تھیوری کے مکالمے‘‘ میں چارسو قبل مسیح میں افلاطون نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’ریپبلک‘‘ میں لکھا کہ شہریوں کا عقلمندی، جرأت، اپنے اوپر کنٹرول اور انصاف والا مزاج ہونا ضروری ہے۔ بعد میں آنے والے تمام ماڈرن فلاسفروں نے افلاطون کے ان چار نکات کو سوسائٹی کے مورل کریکٹر کی بنیاد کہا۔ ایتھنز کے حکمرانوں نے اس فارمولے پرسختی سے عمل کیا اور اپنے شہرکو پورے یونان میں تعلیمی، دانشمندانہ اور ثقافتی سرگرمیوں کی مرکزی تربیت گاہ بنا دیا جس کے تحت یونانی معاشرہ ذہنی اور جسمانی طور پر امن اور جنگ دونوں طرح کے حالات کے لیے مکمل تیار ہوگیا۔ یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے اپنے تعلیمی نظام کا ڈھانچہ بنایا۔ اسے ’’ایتھنز ویژن‘‘ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایتھنز والے اپنے بچوں کے لیے مکمل اور متوازن تعلیم چاہتے تھے۔ وہاں ایسا تعلیمی نظام شروع کیا گیا جس سے طالب علموں کی جسمانی، دانشمندانہ اور اخلاقی صلاحیتیں ابھرکر سامنے آتیں۔ پرانے ایتھنز میں تعلیم دینے کے لیے ریاست کا کوئی دبائو نہیں تھا لیکن تعلیم کی اہمیت کو جانتے ہوئے معاشرے میں اتنا شعور آچکا تھا کہ ہر خاص و عام شہری اپنے بچوں کو لازمی تعلیم دلاتا جس کی وجہ سے ایتھنز میں جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ سکول کھل گئے۔ ’’ایتھنز ویژن‘‘ کے تحت بچوں کو پیدائش سے ایک برس کی عمر تک کھیل اور رنگوں سے لطف اندوز کرایا جاتا۔ اس کے بعد چھ برس کی عمرتک لڑکے اپنی ماں یا غلام سے اور لڑکیاں صرف اپنی ماں سے گھر میں ہی تربیت حاصل کرتیں۔ سات برس کی عمرکو پہنچتے ہی لڑکیوں اور لڑکوں کی سکولنگ علیحدہ علیحدہ کردی جاتی۔ لڑکے سات سے چودہ برس کی عمر تک شہر میں قائم پرائیویٹ سکول جاتے جو پرائمری تعلیم کہلاتی۔ لڑکوں کے سکول کے استاد ہمیشہ مرد ہوتے۔ سکول میں تین پیریڈ ہوتے۔ پہلا پیریڈ لکھنے، پڑھنے اور حساب کتاب سے متعلق ہوتا۔ دوسرا آرٹ، رقص وموسیقی اور شاعری کا تھا۔ اس پیریڈ میں طالب علم میوزک، شاعری اور ادب کے ذریعے اخلاقیات اور تہذیبی اقدار سیکھتے۔ پرائمری سکولنگ کا تیسرا پیریڈ جسمانی تربیت کا ہوتا۔ یہ ٹریننگ شہر کے سٹیڈیم میں سہ پہر کو دی جاتی۔ طالب علم ریسلنگ، جمپنگ، بھاگنے اور نیزہ بازی کی پریکٹس کرتے تاکہ وہ مضبوط جسم کے ساتھ بہادر اور جرأت مند مرد بن سکیں۔ طالب علم لڑکے جب سولہ برس کے ہوتے تو اُن کی بنیادی تعلیم مکمل ہوچکی ہوتی۔ اس کے بعد اُن میں سے کچھ سائنس اور فلسفے کے علم کی طرف چلے جاتے۔ صحت مند جسم رکھنے والے طالب علم اٹھارہ سے بیس برس کی عمر تک لازمی ملٹری ٹریننگ حاصل کرتے۔ دوسری طرف لڑکیاں سات برس کی 
عمر کے بعد گھروں میں ہی اپنی مائوں یا پرائیویٹ خاتون ٹیوٹر سے لکھنے پڑھنے، رقص و موسیقی اور امور خانہ داری کی تعلیم حاصل کرتیں۔ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی مقصد انہیں بہترین گھرداری سکھانا اور بہترین ماں بننے کے لیے تیار کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ اپنے بچوں کو اچھا شہری بنا سکیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ نئی نسل اپنے نامور آبائو اجداد اور دیوتائوں کو یاد رکھے۔ مثلاً طالب علم موجودہ شاعری کے جدامجد شاعر ’’ہومر‘‘ جو ایتھنز کا ہی ایک قدیم نابینا شہری تھا کی شاعری روزانہ لہک لہک کر پڑھتے۔ وہ روزانہ اپنے دیوتائوں کی قسم کھاکر اپنے وطن سے وفاداری کا عہد بھی کرتے۔ یونان کے ایک دوسرے شہر ’’سپارٹا‘‘ میں وطن سے محبت کی ٹریننگ اتنی سختی سے دی جاتی کہ اس کی مثال آج بھی نہیں ملتی۔ مثلاً طالب علموں کو چوری کرنے کی سزا نہیں ملتی تھی لیکن اگر کوئی طالب علم چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو اسے بدترین سزا دی جاتی۔ اس فلسفے کے پیچھے یہ انوکھی منطق تھی کہ جب یہ طالب علم عملی میدان میں داخل ہوکر وطن کا سپاہی بنے گا اور دشمن ملک میں جاکر کارروائی کرے تو ہرگز پکڑا نہ جائے۔ اس بات کو سمجھانے کے لیے یونان کی درسی کتابوں میں ایک کہانی تھی جس میں بتایا گیا کہ ’’ایک مرتبہ پرائمری سکول کے طالب علم نے دوسرے کیمپ سے جاکر لومڑ چرایا۔ جب وہ واپس آرہا تھا تو استاد نے اسے پکڑ لیا۔ لڑکے نے لومڑ کو اپنے کپڑوں کے اندر اپنے جسم سے چپکا لیا۔ استاد نے چوری کے بارے میں پوچھا تو اُس نے صاف انکار کردیا۔ استاد باربار پوچھتا رہا لیکن وہ نہ مانا۔ اس دوران لومڑ اپنے پنجوں اور دانتوں سے لڑکے کا جسم کاٹتا رہا لیکن لڑکے نے اپنے چہرے پر درد کے آثار ظاہر نہیں کئے۔ جب وہ شدید زخمی ہوکر گرا تو استاد نے پھر پوچھا لیکن لڑکے نے آخری سانس لیتے ہوئے بھی چوری سے انکار کر دیا‘‘۔ ایتھنز والوں نے وطن سے وفاداری اور دنیاوی ترقی کا ’’اسمِ اعظم‘‘ اپنے شہریوں کی جسمانی، اخلاقی، جمہوری اور تہذیبی تعلیم میں دریافت کیا تھا۔ ہماری ہر حکومت کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ پاکستان مستقبل میں معاشی طاقت بن کر کئی ملکوں کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی کے بارے میں اِس خوش فہمی کو مان لیتے ہیں لیکن ہماری نئی نسل کی تعلیم و تربیت کے بارے میں اب تک کسی حکومت کی طرف سے کوئی عملی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ کیا ہمارے حکمران اس بات کا یقین دلا سکتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کے شہریوں کا تعلیمی، اخلاقی، تہذیبی، جمہوری اور وطن سے وفاداری کا معیار کم از کم تین ہزار برس پرانے ایتھنز والوں جتنا ضرور ہوگا؟ ۔