اک با ر پھر دہشت گردی

اک با ر پھر دہشت گردی

یوں تو وطنِ عز یز میں دہشت گردی کے تانے 1951میں اسوقت کے وزیرِاعظم لیا قت علی خا ن کے قتل سے جا ملتے ہیں۔ لیکن قابلِ ذ کر دہشت گردی کا آ غا ز 1980کی دہا ئی میں ہو تا دکھا ئی دیتا ہے۔ صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق کے طیا رے کا حا دثہ دہشت گردی ہی کی ایک شکل تھا۔ انہی دنو ں میں پا کستان کا عروس البلا د کہلا نے والا شہر دہشت گر دی کی سولی پہ یوں چڑھا کہ اب تک اترنے کا نا م نہیں لیتا ۔ میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہو یا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کا بہیما نہ قتل، یہ سب دہشت گردی ہی کے زمرے میں آ تاہے۔ تاہم خو دکش حملوں اور بم بلا سٹ کے ذریعے جس بیدردی سے انسا نی جا نوں کا زیا ں ہو تا ہے، اس کا سلسلہ تین روز پہلے کراچی یو نیو رسٹی میں چینی تد ریسی عملے کی گا ڑی پر خود کش حملے سے آ ن ملتا ہے۔ یہ دہشت گردانہ حملہ نہایت دل خراش اور قابلِ مذمت ہے۔ ایسے واقعات پاک چین برادرانہ تعلقات اور جاری ترقیاتی منصوبوں کے خلاف سازش ہیں اور ان میں زیادہ تر وہی عناصر ملوث پائے جاتے ہیں جو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اور چینی تعاون سے جاری منصوبوں کے دشمن ہیں۔ ایسی دشمنی کے پیچھے خارجہ عوامل کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ اس افسوسناک وقوعہ کی ذمہ داری بھی ایک علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم نے قبول کی۔ سکیورٹی حکام تصدیق کرچکے ہیں اور سی سی ٹی وی کی فوٹیج سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ ایک خودکش حملہ تھا۔ مذکورہ دہشت گرد تنظیم کی جانب سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اس سے جہاں اس تنظیم کی بدلتی ہوئی حکمت عملی اور طریقہ واردات کا پتا چلتا ہے وہیں اس کے ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ روابط کا شبہ بھی تقویت پکڑتا ہے۔ سکیورٹی امور کے ماہرین بہت عرصے سے ان خدشات کی نشان دہی کررہے تھے۔ گزشتہ روز کا حملہ جن حالات میں ہوا وہاں سکیورٹی کی خامیوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کسی یونیورسٹی کیمپس کے اندر خودکش بمبار کا داخل ہوجانا ہی ناقص سکیورٹی کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ حکومت کے جانب سے اس المناک وقوعے پر جذباتی بیانات دیئے گئے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے چینی سفارت خانے میں ناظم الامور سے ملاقات کرکے یقین دلایا کہ چینی باشندوں کی جان لینے والوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکائیں گے۔ حکومت کا عزم قابل قدر ہے مگر یہ واضح ہے کہ پاک سرزمین پر چینی باشندوں کے خلاف دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ برس جولائی میں داسو ہائیڈرو پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کی بس کو دہشت گردی کے حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ 29 جون 2020ء کو کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا گیا، اگرچہ براہِ راست یہ حملہ چینی باشندوں پر نہیں تھا مگر اس کا تعلق چینی مفادات کے ساتھ ضرور بنتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی ہمیں وہی دہشت گرد علیحدہ پسند گروہ ملوث دکھائی دیتا ہے جو پاکستان میں چینی مفادات اور چینی باشندوں پر عمومی طور پر حملوں میں ملوث رہا ہے۔ اس سے قبل 23 نومبر 2018ء کو کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ پاکستان میں کسی سفارتی مشن پر سیدھے حملے کا بدترین واقعہ تھا۔ اس قسم کے واقعات کی شدت کا تعین جانی نقصان سے نہیں بلکہ ہدف کی حساسیت سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ برس کوئٹہ کے ایک ہوٹل کی پارکنگ میں دھماکے کو اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ اسی ہوٹل میں چین کے سفیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے؛ اگرچہ دھماکے کے وقت وہ ہوٹل میں موجود نہیں تھے۔ ان بڑے واقعات کے درمیان ایسے کئی اِکا دُکا واقعات بھی ملتے ہیں جہاں چینی شہریوں کو نشانہ بنایا گیا یا ان پر جان لیوا حملوں کی کوشش کی گئی۔ یہ صورتحال اس کے باوجود ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی 
اداروں کی جانب سے چینی شہریوں کے تحفظ کے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ گزشتہ روز دہشت گردی کا نشانہ بننے والی چینی فیکلٹی کی گاڑی کی حفاظت پر بھی رینجرز تعینات تھے اور خودکش حملے میں زخمی ہونے والوں میں کم از کم ایک رینجرز اہلکار بھی شامل ہے۔ سکیورٹی اداروں کی ان کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ ان حفاظتی اقدامات کے باوجود دہشت گرد عناصر نقصان پہنچانے میں کامیاب ہورہے ہیں۔ تخریب کاری کے ان واقعات کا پہلا اور واضح مقصد تو یہ ہے کہ ایسا خوفناک ماحول بنایا جائے جو چین کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور افرادی قوت بھیجنے سے روک دے۔ دہشت گرد عناصر کی یہ کوشش کامیاب نظر نہیں آتی۔ دہشت گردی کا کوئی حملہ بھی چین کو پاکستان میں ترقیاتی پروگرام سے پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ داسو حملے کے بعد اُس منصوبے پر کچھ دیر کام رکا، مگر اس سال جنوری میں اس منصوبے پر بھی کام پھر شروع ہوگیا۔ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ بھی، امید کی جاسکتی ہے کہ اپنا کام جلد شروع کرے گا۔ چین تخریب کاری کی اس بزدلانہ حرکت سے بھی بددل نہیں ہوگا، مگر چین کا جرأت مندانہ رسپانس ہمیں ہماری کوتاہیوں سے بری الذمہ نہیں کرتا۔ اسے چین کی مہربانی سمجھنا چاہیے کہ وہ پاکستانی سرزمین پر اپنے باشندوں کے خلاف حملوں کے لیے پاکستان سے بازپُرس کرنے کے بجائے ہمارے حالات کو سمجھتے ہوئے بردباری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ مگر ہماری حکومت اور اداروں کوذمہ داری کا وزن محسوس کرنا چاہیے اور یقینی بنانا چاہیے کہ دہشت گرد عناصر جہاں بھی چھپے ہوں، ان کی بیخ کنی کی جائے۔ چینی سفارتی عملے نے وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ سندھ کی وضاحتوں اور یقین دہانیوں کا ضرور اعتبار کرلیا ہوگا کیونکہ ایک دوست اور دیرینہ شراکت دار ہونے کے ناتے چین اور پاکستان کا باہمی تعلق کسی شک و شبہ کو جگہ نہیں دیتا۔ مگر ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ داسو حملے، چینی قونصلیٹ کراچی پر حملے، کوئٹہ اور کراچی میں چینی شہریوں پر جان لیوا حملوں اور چینی ترقیاتی ورکرز کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے والوں کو کس قدر عبرت کا نشان بنایا جا سکا ہے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دہشت گردی کی اس نئی لہر کے تناظر میں اپنے سکیورٹی معاملات کا ایک بار پھر جائزہ لیں اور اس نئی لہر کے خاتمے کے لیے نئی منصوبہ بندی کریں، خصوصی طور پر ہمیں چینی باشندوں کی حفاظت کا فول پروف انتظام کرنا ہوگا جو ہمارے وطن میں ہماری بہتری اور ترقی کی خاطر مصروفِ عمل ہیں۔ دیکھنے اور سو چنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گرد حملوں نے ہمیں من حیث القوم جس قدر نقصان پہنچایا ہے، کیا کبھی ہم اسکا تدارک کر پائیں گے۔ مثال کے طور پر آسٹریلیا کے ساتھ اس سال ہو نے والے ٹیسٹ میچ سے پہلے آخر ی ٹیسٹ میچ ہم نے اپنی سرزمین پر 2009 میں کھیلا تھا۔ اور کچھ نہیں تو اس دوران ہمیں جو کر کٹ کی مد میں جو نقصان ہوا، کم از کم ہم اسی کا سوچ لیں۔ 

مصنف کے بارے میں