سیلاب اور تقسیم شدہ قوم۔۔۔

سیلاب اور تقسیم شدہ قوم۔۔۔

وطن عزیز میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اس سے بے خبر سیاسی پوائنٹ سکورنگ میں مصروف ہے۔ جس سے قوم بھی جو ان مواقع پر یکجا ہوا کرتی تھی تقسیم کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریاں اس قدر ہیں کہ ملکی وسائل ان سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہیں لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ہم نے انفراسٹرکچر کی بہتری کی طرف توجہ کیوں نہ دی اور جب بھی بُرا وقت آیا امداد کے لیے کشکول اٹھائے چل پڑے۔ اب تک ہزار سے زائد افراد بروقت امداد نہ پہنچنے یا ریسکیو آلات کی کمیابی کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔ لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر ہیں ان کے ہزاروں گھر منہدم ہو چکے ہیں۔ سیکڑوں افراد زخمی ہیں لیکن بہت کم کو علاج کی سہولتیں میسر ہیں۔ ہزاروں مویشی اور کروڑوں کی املاک بھی تباہ ہو گئیں لیکن سیلاب زدگان کی مکمل بحالی اور داد رسی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔ سیکڑوں میل سڑکیں، پل، درجنوں ڈیم اور ہیڈ ورکس بھی سیلاب کی نذر ہو گئے۔ سیلاب تو ٹل جائے گا لیکن اس کے بعد جو وبائی امراض پھوٹیں گے اس سے نمٹنے کے لیے بھی ہماری حکومتوں کی کوئی تیاری نہیں ہے۔ 
وزیر اعظم شہباز شریف بھی قومی حکمت عملی کے بجائے اپنے اتحادیوں کو نوازنے میں مصروف ہیں جس میں سر فہرست صوبہ سندھ اور بلوچستان ہے۔ یہ اچھی بات ہے لیکن دیگر متاثرہ علاقوں کو اس بنا پر نظر انداز کرنا کہ وہاں ان کے اتحادیوں کی حکومت نہیں قطعاً مناسب اور قابل ستائش نہیں۔ خیبر پختون خوا، گلگت بلتستان، پنجاب اور آزاد کشمیر پر بھی افتاد آن پڑی ہے لیکن وزیر اعظم کے پاس ان علاقوں کے لیے شاید وقت یا وسائل نہیں۔ خیبر پختونخوا، پنجاب، بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں شدید ترین بارشوں کے بعد جب دریا بپھر کر شدید ترین سیلاب کی پیشین گوئی کر رہے تھے تو اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات بھی اور تھیں اور توجہ اس آنے والی تباہی سے بچنے کے لیے ممکنہ اقدامات کے بجائے سیاسی پوائنٹ سکورنگ پر تھی۔ تمام تر توانائیاں اور داو پیچ اس پر آزمائے جا رہے تھے کہ عمران خان اور سیاسی مخالفین کو کیسے کچلا جائے۔ بپھرے ہوئے دریاوں کی گھن گرج ان کے کان سننے سے عاری تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے سیلاب کو اس وقت سنجیدہ لیا جب کہ پانی سر سے گزر چکا تھا۔ ہولناک سیلاب کے پہلے پندرہ دن تو حکومت کا محور ناپسندیدہ میڈیا اور صحافیوں کے خلاف پابندی کی مہم، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی اپوزیشن کو کچلنے کی بڑھکیں اور عمران خان کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنانا اور ڈاکٹر شہباز گل کو سبق سکھانا ہی قومی فریضہ تھا۔ جس کی وجہ سے شدید ترین بارشوں کے بعد ان کا دھیان ہی نہ گیا کہ ماضی کی طرح سیلاب بھی آ سکتا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ وزارت داخلہ کو سیلاب کے بارے میں بار بار سمریاں بھیجی گئیں لیکن کابینہ اور وزیر اعظم اس وقت اپوزیشن اور میڈیا کو کچلنے کے نت نئے ہتھکنڈوں میں مصروف تھے۔ مولانا فضل الرحمان ترکی کے تفریحی دورے پر تھے اور سپیکر قومی اسمبلی لاو لشکر کے ساتھ کینیڈا میں نیاگرا فال کے نیچے کھڑے ہو کر غسل صحت لے رہے تھے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی وطن عزیز میں شدید ترین بارشوں کے بعد کے حالات کا جائزہ لینے اور مناسب اقدامات کرنے کے بجائے وزرا کی فوج ظفر موج کے ساتھ بیرون ملک دوروں میں مشغول تھے۔ مسلم لیگی کہتے ہیں کہ یہ حکومتی مشینری کی ناکامی تھی کہ انہوں نے حکومت کو بروقت مطلع کیوں نہ کیا اور ضروری اقدامات کیوں نہ اٹھائے۔ میں نے جب اسلام آباد میں بنفس نفیس ایک بڑے بابو سے اس بابت پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ غیر متوقع بارشوں اور اس کے نتیجے میں متوقع سیلاب کے بارے میں کابینہ ڈویژن کی طرف سے حکومتوں کو مختلف محکموں کی طرف سے درجنوں سمریاں بھیجی گئیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اکثر سمریاں متعلقہ وزارتوں میں کھول کر ہی نہ دیکھی گئیں۔ گو کہ مجھے انہوں نے ان سمریوں کو کھولنے تو کجا ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہ دی لیکن ان فائلوں پر فیتوں کی گرہیں اور کاغذات کی ترتیب اس بڑے بابو کے دعووں کی تائید کر رہی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنی حکومت کی سیلاب بارے حکمت عملی کی نااہلی سامنے آنے کے فوری بعد سیاست سے ہٹ کر آل پارٹیز کانفرنس بلاتی تا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کےلئے کوئی مشترکہ حکمت عملی بنا لی جاتی لیکن یہاں بھی شہباز شریف کی متحدہ حکومت نے ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مدعو کیے بغیر ہی آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔ یہاں بھی انا جیت گئی اور عقل ہار گئی۔ 
محترمہ مریم نواز صاحبہ یوں تو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے ہر موقع پر فعال ہو جاتی ہیں لیکن سیلاب کے معاملے وہ بھی گوشہ نشیں رہیں سوائے ایک آدھ ٹویٹ کے۔ البتہ ان کے ہرکارے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر چاند ماری کرتے رہے۔ اس کی ایک وجہ مسلم لیگ کی اندرونی لڑائی اتنی شدت اختیار کر چکی ہے کہ نواز شریف نے بھی شہباز حکومت سے ناراضی کا اظہار کر دیا ہے۔ لیکن اس کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ وزیر اعظم نے مقامی صوبائی حکومت کے ساتھ سندھ اور بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورے کیے اور امداد کا اعلان بھی کیا لیکن خیبر پختون خوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ان کے التفات سے محروم ہی رہے۔ اگر اس انسانی المیے میں بھی وہ سیاست سیاست کھلیں گے تو ان کا بطور وزیر اعظم تشخص متاثر ہو گا۔
جمہوری نظام میں اپوزیشن اہم ملکی معاملات پر نظر رکھنے کے علاوہ ہمیشہ سے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ خاص طور پر جب ملک کے تین بڑے صوبوں اور آزاد کشمیر پر اپوزیشن کی حکمرانی ہو تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے لیکن اپوزیشن بھی اپوزیشن اپوزیشن ہی کھیلتی رہی۔ سیلاب سے سب سے زیادہ تباہی تحریک انصاف کے زیر حکمران صوبوں خیبرپختون خوا، پنجاب اور گلگت بلتستان میں آئی ہے اور اس حوالے سے ان کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی نے ایسے وقت میں بھی سیلاب زدگان کی مدد کے بجائے سیاسی جلسوں کو اہمیت دی۔ یہی توانائیاں اور وسائل اگر سیلاب زدگان کی بحالی پر لگتے تو بہت بہتر ہوتا۔ کیا بہتر ہوتا کہ عمران خان صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب، کے پی کے، جی بی اور آزاد کشمیر کی حکومتوں سے مل کر سیلاب زدگان کی امداد کے لیے فنڈز کی اپیل کر سکتے تھے۔ دیر آید درست آید کے مصداق گو کہ قائد تحریک انصاف نے اب آ کر سیلاب زدگان کی بحالی کا بیڑا اٹھایا ہے جس کے لیے فنڈ ریزنگ بھی کر رہے ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ بہتر ہوتا کہ جلسوں کی سیریز ملتوی کر کے تمام تر توجہ سیلاب زدگان کی بحالی پر دی جائے۔ وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ عمران خان پر نیشنل میڈیا پر لائیو پابندی اٹھا کر انہیں سیلاب زدگان کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے لائیو ٹیلی تھون کی اجازت دے دے۔ لیکن قرآئن سے لگ رہا ہے کہ سیاست جیت جائے گی۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں