طوفانِ نوح میں بازاری سیاست

طوفانِ نوح میں بازاری سیاست

طوفانی بارشوں اور تباہی پھیلانے والے سیلاب سے پورا ملک متاثر ہے۔ آسمان نے اپنا سارا پانی زمین پر برسا دیا۔ پاکستان میں اس سے قبل کبھی اتنی دھواں دھار بارشیں نہیں ہوئی تھیں۔ 2010ءکی بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی تھی لیکن گزشتہ دو ماہ کی بارشیں اور سیلاب سب کچھ بہا کر لے گیا۔ ندی نالوں میں طغیانی طوفان نوح کا منظر پیش کر رہی ہے۔ طوفان نوحؑ میں اللہ تعالیٰ نے آسمان کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے سارے سوتے کھول دے زمین نے پانی کے سارے ذخائر اگل دیے تھے روئے زمین پر صرف 72 اہل ایمان بچے تھے جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار تھے۔ پاکستان میں موجودہ بارشوں سے ہونے والی تباہی طوفان نوحؑ کی شکل ہے۔ اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے ان میں خواتین بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں جو پانی کی تیز لہروں میں بہہ گئے۔ 2 کروڑ افراد بے گھر ہوئے 15 لاکھ گھر تباہ، 139 مارکیٹیں بے نشان، 15 لاکھ مویشی ہلاک، کروڑوں کا نقصان ہوا۔ شمالی علاقوں میں سیاحوں کے لیے تعمیر کردہ عالی شان ہوٹل سیلابی ریلوں کا مقابلہ نہ کر سکے کوئی صوبہ محفوظ نہیں۔ پاک فوج کے جوان اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر انسانی جانیں بچانے میں دن رات مصروف ہیں۔ الخدمت کے رضاکار بھی ریسکیو کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی مقدور بھر کوششیں کر رہی ہیں۔ لیکن منہ زور طوفانوں کا مقابلہ کون کرے سیلاب یہ خدا کی قسم اور کچھ نہیں، جلوے دکھا رہا ہے وہ اپنے جلال کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ اس ناگہانی عذاب سے جلد نجات مل سکے۔ لاکھوں بے گھر بے در لوگوں کی مشکلات دیکھی نہیں جاتیں مگر بازاری سیاست اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی ہلچل اور ملک کو خونی تصادم کی طرف دھکیلنے والی کشمکش آخری مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے آخری مناظر سے پردہ اٹھنے کو ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ غریب اور بے آسرا لوگوں کی جانیں بچانا اور انہیں سر چھپانے کے لیے گھر مہیا کرنا سیاستدانوں کی ترجیح نہیں۔ انہیں اپنی سیاست بچانے، نا اہلی کی تلوار سر سے ہٹانے، گرفتاریوں سے بچنے کے لیے ضمانتیں کرانے اور شہباز گل کو بغاوت کے مقدمہ سے بچانے کی فکر ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے متاثرین بھرائی آوازوں سے مدد کے لیے پکار رہے ہیں۔ لیکن ہمارے کپتان کو ضمنی الیکشن جیتنے 9 حلقوں سے الیکشن لڑنے اور جلسے جلوسوں، ریلیوں میں نام لے لے کر دشنام طرازی سے فرصت نہیں۔ شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے کہ 9 حلقوں میں انتخابات پر 50 کروڑ کے اخراجات آئیں گے۔ لگتا ہے کہ انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کو بھی اپنے سیاسی ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔ کپتان پر کم و بیش 20 مقدمات ہیں خاتون جج کو دھمکیاں دینے اور شرم دلانے کی تقریر پر ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا مگر انہوں نے یکم ستمبر تک عبوری ضمانت کرا لی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں انہیں 31 اگست کو طلب کر لیا ہے جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کی اٹل رائے ہے کہ کپتان عدالت عالیہ سے غیر مشروط معافی بھی مانگ لیں تب بھی ان کی جان نہیں چھوٹے گی وہ گرفتار یا نا اہل ہو سکتے ہیں۔ ادھر الیکشن کمیشن نے انہیں فارن فنڈنگ کیس اور توہین عدالت کیس میں شوکاز نوٹس بجھوایا ہے۔ شامت اعمال، عمران خان فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ، شہباز گل کیس کے کھڈوں سے بچنے کی کوشش میں توہین عدالت کیس کی گہری کھائی میں جا گرے ہیں۔ ان پر توہین عدالت کے تین کیسز ہیں۔ سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانا۔ الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوئے اور خاتون سیشن جج کا نام لے کر کارروائی کی دھمکی دی۔ اس ضمن میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر شعیب شاہین جو ان کے وکیل بھی ہیں کی رائے ہے کہ عمران خان کو عدالت سے معافی مانگ لینی چاہیے ورنہ صورتحال 
خطرناک ہو سکتی ہے دیگر مقدمات میں بھی جان چھوٹتی نظر نہیں آتی۔ مگر عمران خان کو ارد گرد منڈلاتے خطرات کی پروا نہیں وہ اس زعم میں مبتلا ہیں یا مبتلا کر دیے گئے ہیں کہ وہ ملک کی موجودہ تباہ کن معاشی صورتحال اور 44 فیصد مہنگائی کی وجہ سے عوام میں مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ 54 ٹی وی چینلز، اپنے پرائے اور خصوصاً ان کے ارد گرد کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ وہ مقبولیت کے عروج پر ہیں کسی نے کہا کے ٹو پر ہیں کسی نے نانگا پربت پر بتایا اور کسی نے ہمالیائی چوٹی ماونٹ ایورسٹ پر پہنچا دیا۔ ان تبصروں اور بے جا جائزوں نے انہیں اتنا مغرور بنا دیا کہ وہ اداروں، عدلیہ اور سیاستدانوں کو ابھی تک بے نقط سنا رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مجھے خبر ہے کہ میرا مثیل کوئی نہیں کسی سے کس لیے انصاف مانگنے جاوں حالانکہ اس وقت انہیں مذکورہ بالا چار مقدمات میں سیریس تھریٹس درپیش ہیں اور آئندہ چند ہفتوں میں کچھ نہ کچھ فیصلے متوقع ہیں۔ انہیں 3 سے 5 سال قید ہو سکتی ہے۔ نا اہلی کے سبب پولیٹیکل کیریئر ختم ہو سکتا ہے۔ شاید انہیں یقین ہے کہ وہ الیکشن کمیشن یا اسلام آباد ہائیکورٹ کے سخت فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے جائیں گے جہاں 3 رکنی بینچ انہیں ریلیف دے دے گا۔ لیکن اب کے سرگرانی اور ہے۔ اس مرحلہ پر لیول پلیئنگ فیلڈ (Level Playing field) کا سوال اٹھے گا نہال ہاشمی، طلال چودھری غیر مشروط معافی کے باوجود نا اہل قرار پائے بلکہ نہال ہاشمی کو تو وکیل ہونے کے باوجود ایک ماہ قید کی سزا بھی بھگتنا پڑی تھی۔ اس کے علاوہ ن لیگ کے قائد نواز شریف بھی پاکستان آنے اور ڈوبتی ن لیگ کو سنبھالنے کے لیے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہے ہیں کسی بھی فیصلے سے قبل ان کی تا حیات نا اہلی کا فیصلہ بھی زیر بحث آ سکتا ہے۔ انہیں تو پاناما کے بجائے اقامہ میں اپنے بچے سے تنخواہ نہ لینے اور وہ (Recieveable) رقم ڈیکلیئر نہ کرنے پر گاڈ فادر قرار دیتے ہوئے تا حیات نا اہل کر دیا گیا تھا ان تمام خطرات کے باوجود کپتان ڈٹ کر کھڑا ہے، اس کا کہنا ہے کہ میں ساری وکٹیں اڑا دوں گا۔ یہ زعم یہ غرور انہیں کس نے بخشا ہے۔ تجزیہ کاروں کی متفقہ رائے ہے کہ موجودہ حکومت کے غلط فیصلوں نے عمران خان کو مقبولیت بلکہ بے پناہ مقبولیت عطا کی ہے کس نے کہا تھا مشکل فیصلے کرو ریاست بچاو کے لیے کیے گئے فیصلوں کو عوام میں پذیرائی نہیں ملی۔ عوام کو روٹی، پانی، بجلی، سستا پٹرول اور سستی اشیائے صرف درکار ہیں۔ وہ ان باریکیوں اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں کو نہیں سمجھتے۔ ان دھندوں میں ن لیگ ماری گئی پنجاب حکومت ہاتھ سے گئی۔ ضمنی الیکشن میں جو پنجاب میں ہوئے 15 نشستوں پر شکست نے اس کی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وفاقی حکومت اسلام آباد کی 125 کلو میٹر رقبہ پر مشتمل اور دونوں جانب سے گھری ہوئی ہے پنجاب میں 14 ن لیگی رہنما 14 دن کی ضمانت پر ہیں۔ پرویز الٰہی پر جاتی امرا پر چھاپے کا دباو ہے، پی پی پنجاب میں پہلے سے سسک رہی ہے۔ تین میں نہ تیرہ میں کراچی کے حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ کپتان نے اپنے ساڑھے تین سال میں جو گل کھلائے تھے عوام ان سے مایوس تھے لیکن جان لیوا مہنگائی اور اسے قابو کرنے میں وفاقی حکومت کی نا کامی نے عوام کو ساڑھے تین سال کے مصائب اور مشکلات بھلا دیں اور وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو بددعائیں دینے لگے ہیں۔ اس کے مقابلے میں عمران خان جو اپنے نت نئے بیانیوں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں تمام تر خطرات کے باوجود دھمکیاں دے رہے ہیں کہ فوری انتخابات کراو ورنہ ستمبر میں کال دے کر پورے ملک کو جام کر دوں گا۔ عمران خان جہاں اپنے بیانیوں اور اعمال کے باعث کھائی میں جا گرے ہیں وہاں پی ڈی ایم بھی اندھے کنوئیں میں ڈبکیاں لگا رہی ہے کپتان کو یقین ہے یا کسی جانب سے فرشتوں نے یقین ہے کہ الیکشن اب ہوں یا اگست 2023ءمیں وہ دو تہائی اکثریت سے جیت جائیں گے۔ حالات مزید خراب ہوں گے نت نئے بیانیوں کا ایکسپرٹ پرانے سیاستدانوں کو نہ چھوڑنے کے عزم پر اب بھی قائم ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ میں اب مزید خطرناک ہو گیا ہوں۔ 180 دنوں کے لیے عمران خان کے پاس 180 بیانیے ہیں یو ٹرن کے ماہر سے لاڈ پیار کرنے والے ابھی تک موجود ہیں۔ وہ انہیں بچاتے رہیں گے ضمانتیں اسی طرح منظور ہوتی رہیں تو شہباز حکومت کیا کر لے گی۔آصف زرداری کیا بگاڑ لیں گے۔ مولانا فضل الرحمان ان کے لیے زمین گرم نہیں کر سکے کہ ان کے پاوں جلنے لگیں اس کے برعکس کپتان نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ سارے وزیروں مشیروں کے پاوں جلنے لگے ہیں۔ ایسی صورتحال بن رہی ہے کہ سارے پرانے سیاستدان چھ آٹھ ماہ کی چھٹیوں پر بیرون ملک چلے جائیں اور ملک کو اللہ کے حوالے کر دیں لیکن یہ ساری صورتحال کپتان کے بچنے یا بچا لیے جانے پر منحصر ہے۔ شومئی قسمت سے نا اہل ہو گئے یا رانا ثنا اللہ کی خوش قسمتی سے گرفتار ہو گئے تو سب مال پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ پہلے نا اہلی پھر گرفتاری، سیانوں کا کہنا ہے کہ کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہو گی لوگ ارد گرد کے حالات دیکھ کر ہی سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ 25 مئی کو لاکھوں کا مجمع چند ہزار میں تبدیل ہو گیا تھا، تاریخ یہی بتاتی ہے۔ مقبول سیاستدان اپنی مقبولیت کے زعم میں بلندی سے گر کر گمنامی کے گہرے پانیوں میں ڈوب جایا کرتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں