میگا فلڈ سے جنم لیتا انسانی المیہ

میگا فلڈ سے جنم لیتا انسانی المیہ

ملک کے چاروں صوبوں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں 30 سالہ ریکارڈ قائم کرتے ہوئے اندازاً 600 فیصد زیادہ طوفانی بارشوں اور تند و تیز سیلابی ریلوں نے جو ہولناک تباہی مچائی ہے اس سے مجموعی طور پر 116 اضلاع میں اب تک کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 326 بچوں سمیت 900 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں اور نظام زندگی درہم برہم ہو گیا ہے۔ لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، کہ ایک انسانی المیہ جنم لیتا سامنے نظر آ رہا ہے۔ تقریباً 5 لاکھ مکانات منہدم یا جزوی نقصان سے دو چار ہوئے جس سے ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو گئے۔ سیکڑوں بستیاں پانی میں ڈوب گئیں، 2886 شاہراہیں پانی کی نذر ہو گئیں۔ 3 ہزار کلومیٹر سڑکیں اور 129 پل بہہ گئے۔ ایک لاکھ 27 ہزار مویشی ہلاک اور لاکھوں روپے کا گھریلو سامان تباہ ہو گیا۔ سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہزاروں ٹن گندم خراب ہو گئی اور صرف سندھ میں وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کے مطابق 90 فیصد کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں۔ سندھ، بلوچستان اور بڑی حد تک خیبر پختونخوا بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پنجاب میں کئی اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑی۔ بلوچستان کا سندھ اور خیبر پختونخوا سے زمینی رابطہ اس وقت منقطع ہے اور پنجاب کے ساتھ بھی ٹریفک معمول کے مطابق نہیں، کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ بند ہے۔ نواب شاہ ائیر پورٹ بھی رن وے پر پانی آ جانے سے بند کر دیا گیا ہے۔ چاروں صوبوں میں کئی اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے اور سندھ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج بلا لی گئی ہے۔ بلوچستان میں بھی فوج سیلاب زدگان کے ریسکیو اور امدادی کاموں میں مصروف ہے۔ سیلاب سے متاثر ہونے والے ہزاروں لوگ دربدر ہیں اور رسائی نہ ہونے کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا بھی ان تک پہنچ نہیں پاتیں۔ بارشوں کا ایک اور سپیل ملک میں داخل ہو گیا ہے جس سے صورتحال مزید سنگین ہونے جا رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں متاثرین کو حتی المقدور امداد فراہم کر رہی ہیں مگر ان کے وسائل بھی کم پڑ گئے ہیں۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس خیمے ختم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اندرون اور بیرون ملک سے عطیات جمع کرنے کے لیے ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جو کئی روز بلوچستان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر رہے۔ پہلے ہی قومی سطح پر وزیراعظم ریلیف فنڈ قائم کر چکے ہیں اور مصیبت زدگان کی امداد کے لیے ڈونرز کانفرنس کی تیاری بھی کر لی گئی ہے۔ سندھ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کی جا رہی ہے ارکان اسمبلی، وزیر مشیر اور معاون خصوصی بھی ایک ایک ماہ کی تنخواہ سیلاب زدگان کے لیے دیں گے۔ قطر سے واپسی پر وزیراعظم نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں مزید تیز کرنے کی ہدایت کی ہے، ایک طرف قوم اس تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے تو دوسری طرف ملک کا سیاسی منظرنامہ بھی انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ بجائے اس کے کہ تمام سیاسی جماعتیں باہمی آویزشیں عارضی طور پر ہی سہی چھوڑ 
کر سیلاب زدگان کی مدد کو پہنچیں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی جنگ میں دن رات مصروف ہیں۔ بے دردی اور بے حسی کی یہ انتہا ہے، سیاسی بے یقینی نے پہلے ہی ملک کو معاشی مشکلات کی دلدل میں پھنسا رکھا ہے غیر معمولی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے ہونے والے جانی اور مالی نقصانات نے صورتحال کو اور سنگین بنا دیا ہے۔ ایسے میں ملک کی سیاسی قیادت اقتدار کی جنگ میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنانے اور زہریلی بیان بازی روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت ملک کی فکر کی جائے اور بارشوں، سیلاب، مہنگائی اور بے روزگاری سے تباہ حال عوام پر توجہ دی جائے، ایجی ٹیشن کی سیاست کو کم سے کم وقتی طور پر ترک کر کے تدبر اور ہوش مندی کا راستہ اختیار کیا جائے۔ وزیر ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمن نے متواتر بارشوں اور سیلابی صورتحال کو غیر معمولی انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنا کسی ایک صوبے یا ملک کے بس میں نہیں اس کیلئے اقوام متحدہ سے مدد طلب کی جائے گی نیز امداد کیلئے عالمی اپیل بھی کی جائے گی۔ وفاقی وزیر ماحولیاتی تبدیلی کے مطابق ان سیلابوں سے پنجاب سندھ اور بلوچستان میں آٹھ کروڑ افراد متاثر ہوئے اور ان کی شدت 2010 کے میگا فلڈ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ اُس سیلاب کا پانی دریاو¿ں کے اندر تھا جس سے دریاو¿ں کا قریبی علاقہ ہی متاثر ہوا مگر شدید بارشوں کے اس سیلاب کے اثرات وسیع تر نوعیت کے ہیں جن سے جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کا بڑا حصہ شدید متاثر ہوا ہے۔ وسط جون سے اب تک مسلسل بارشوں کی وجہ سے آبی ذخائر مکمل بھر چکے ہیں دریاو¿ں میں بھی پانی کی سطح بلند ہے مگر بارشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور یہ ستمبر تک جاری رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ ان حالات میں متاثرہ علاقوں میں نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ جو کچھ ہوا یہ قدرتی آفات کے زمرے میں آتا ہے اور اس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہ تھا البتہ بروقت اقدامات سے اس کے نقصانات کو کم کیا جا سکتا تھا۔ مگر جو صورتحال خوفناک المیے میں تبدیل ہو چکی ہے معلوم ہوتا ہے کہ بروقت اقدامات میں تاخیر کا اس میں بڑا عمل دخل ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے اس سال جون میں آگاہ کیا گیا تھا کہ مون سون سیزن میں معمول سے زیادہ بارشیں ہو سکتی ہیں مگر ایسا نہیں لگتا کہ اس خدشے کو مد نظر رکھتے ہوئے اربن فلڈنگ کی صورت میں بچاو¿ کے بہتر انتظامات اور بروقت تیاری کی گئی۔ سیاسی صورتحال توجہ کا محور رہی اور سیلاب زدگان کی جانب توجہ اسی وقت ہوئی جب واقعتا پانی سر سے گزر چکا تھا اور پنجاب سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصے میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنا اثر دکھا چکی تھیں۔ اب ہماری حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس صورت حال کو سنبھالنا اس کے بس میں نہیں اور اقوام متحدہ سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں سے خیموں دواو¿ں اور خوراک کے بحران کی خبریں تواتر سے آ رہی ہیں اور اقوام متحدہ کی جانب سے امداد پہنچنے تک سیلاب زدگان کو بھوک شیلٹر اور بیماریوں کی صورت میں مزید مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ متاثرہ علاقوں میں بارشیں مسلسل جاری رہی ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے کئی روز تک جاری رہنے کی اطلاعات ہیں جس سے سیلاب زدگان کی مشکلات اور نقصانات میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ ملک کے رفاہی ادارے ان حالات میں متاثرین کیلئے امداد پہنچا رہے ہیں مگر ان کے متحرک ہونے میں بھی دیر ہوئی اور رفاہی اداروں کی کپیسٹی کا سوال بھی ہے۔ اس ہنگامی صورتحال میں عوام خاص طور پر سمندر پار پاکستانیوں سے امداد کی اپیل خاصی مددگار ثابت ہو سکتی تھی مگر یہ فیصلہ ہونے میں بھی تاخیر ہوئی۔ مگر ان اپیلوں سے قبل حکومت کو سیلاب زدگان کی جانب متوجہ ہونا چاہیے تھا۔ 2010 اور آج کے حالات میں جو فرق نمایاں ہے وہ یہ کہ اُس وقت سیلاب زدگان کے مصائب سے آگاہی اور ان کی بروقت امداد کیلئے حکومتی اور عوامی سطح پر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدگی پائی جاتی تھی اس کا نتیجہ عالمی تعاون کی صورت میں بھی سامنے آیا۔ اگر حالیہ سیلاب اُس میگا فلڈ سے زیادہ خطرناک ہیں تو ضروری ہے کہ حکومت 2010 کی حکومت کے مقابلے میں زیادہ فکرمندی اور سنجیدگی دکھائے؛ تاہم ایسے حالات میں ذمہ داری صرف حکومتوں پر عائد کر دینا کافی نہیں اصولی طور پر اس کیلئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے اور سیاسی اختلافات کو بھلا کر قومی اور انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ کام کرنا ضروری ہوتا ہے۔

مصنف کے بارے میں