قوم کی خدمت کیلئے3گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا،میرا امتحان شروع ہو چکا ،نتیجہ ریٹائرمنٹ پرنکلے گا:چیف جسٹس

قوم کی خدمت کیلئے3گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا،میرا امتحان شروع ہو چکا ،نتیجہ ریٹائرمنٹ پرنکلے گا:چیف جسٹس
کیپشن: نیو نیوز سکرین گریب

لاہور:چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ میری زندگی کا اولین مقصد اپنے پیشے سے مخلص رہنا ہے،پیشہ ورانہ زندگی میں خلوص نیت سے ذمے داری نبھانا اصل خدمت ہے اوراپنی پوری زندگی میں انصاف کے حصول کیلئے کام کیا۔

تفصیلات کے مطابق سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے کانووکیشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ قوم کی خدمت کیلئے3گھنٹے سے زیادہ نہیں سوتا،میرا امتحان شروع ہو چکا ہے ، اس کا نتیجہ میری ریٹائرمنٹ پرنکلے گا،لوگوں کے مسائل کی وجہ سے میں جدوجہد کررہاہوں،بلوچستان گیا تو پتاچلا سب سے بڑے ہسپتال میں آئی سی یو نہیں تھا،بلوچستان کے سب سے بڑے ہسپتال میں اسامیاں خالی پڑی ہیں،میرا ہر مقصد نیک نیتی سے بھرپور ہے ،دو ہزار پیرامیڈیکس کچھ روز سے ہڑتال پر تھے،مجھے مشورہ دیا گیا بلوچستان نہ جائیں پیرامیڈیکس ہڑتال پر ہیں ،میں بلوچستان گیااورپیرامیڈیکس کا ایک ایک جائز مطالبہ پوراکیا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ مجھے ملک کے ہرکالج ، ہرہسپتال کےساتھ محبت ہے،میری محبت یکطرفہ نہیں، دوطرفہ ہے،پنجاب،سندھ، بلوچستان، کے پی کے ہرعلاقے میں موجود تعلیمی ادارے، ہر ہسپتال سے مجھے محبت ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہیلتھ کیئر سسٹم میں سب سے اہم کردار ڈاکٹر کا ہے ،اللہ نے مجھ پر بہت بڑی ذمے داری ڈالی ،پرائیوٹ کالجزکے طالبعلموں سے لی جانےوالی 35 لاکھ روپے تک کی فیس واپس دلائی ،ہسپتالوں کو چلانا میرا یا عدالتوں کا کام نہیں تھا لیکن وہاں پرغلطیاں ہورہی تھیں، کئی کئی کروڑروپے لے کر ہسپتالوں کا الحاق کیا گیا ۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جوشخص کسی عذاب سے گزرتا ہے اسے دوسرے کی تکلیفوں کا احساس ہوتا ہے،والدہ نے دعا کی ےااللہ جوتکلیفیں تھیں تونے مجھے دےدیں،میری اولادکومحفوظ رکھنا،والدہ نے مجھے اور میرے بھائی کو انسانیت کی خدمت کی نصیحت کی جبکہ ڈاکٹرز اپنے حلف پر عمل کریں آخرت میں سرخروئی ہوگی،میں نے آج تک کسی ایک ہسپتال کو نہیں چلایا نہ ہی انتظامی امور کو چلایا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پیداہونےوالا ہر پاکستانی بچہ 1لاکھ 21ہزار روپے کا مقروض ہوتاہے،نجی میڈیکل کالج اورہسپتال تربیت گاہ نہیں ،بزنس ہائوس بن گئے ،اربوں روپے نجی ہسپتالوں سے لے کر والدین کو واپس دلوائے،جہاں غلطیاں تھیں انہیں ٹھیک کرنے کے اقدامات کیے،عدلیہ نے کسی ہسپتال کی مینجمنٹ میں مداخلت نہیں کی۔