عالمی کرپشن رینکنگ اورپاکستانی پاسپورٹ آفر!

عالمی کرپشن رینکنگ اورپاکستانی پاسپورٹ آفر!

وزیراعظم عمران خان ماضی میں اپنی تقاریر میں اکثر اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ برسراقتدارآکر پاکستانی پاسپورٹ کا وقار بحال کرائیں گے مگر اْنکے 3 سالہ دور میں جہاں پاکستان نے عالمی کرپشن رینکنگ میں ترقی کی ہے، وہاں پاکستانی پاسپورٹ کی تنزلی اور بے توقیری میں بھی اضافہ ہوا ہے جس سے حکومت کی معاشی، اقتصادی اور سماجی ترقی کے دعوئوں کی تردید ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ماضی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کو مستند قرار دیتے رہے ہیں اوراسی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کرپشن رینکنگ میں 16 درجے اوپر چلا گیا اور کرپشن پرسیپشن انڈیکس میں پاکستان دنیا میں140ویں نمبر پر آگیا۔ جبکہ پاسپورٹ رینکنگ کے عالمی ادارے ہینڈلے نے اپنا 2022کا پاسپورٹ انڈیکس جاری کیا۔ اس فہرست کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ دنیا کا چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار پایا۔ گزشتہ سال 2021 کی رینکنگ میں پاکستانی پاسپورٹ پانچویں نمبر پر تھا جو مزید ایک درجہ کم ہوکر چوتھے نمبر پرآگیا اور پاکستان سے نیچے شام، عراق اور افغانستان جیسے خانہ جنگی کا شکار ممالک ہیں۔ جبکہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی سروے رپورٹ 2021 میں بدعنوان اداروں میں پولیس سرفہرست، عدلیہ دوسرے، ٹینڈر اور کنٹریکٹنگ سیکٹر تیسرے نمبر پر، صحت چوتھے، لینڈ ایڈمنسٹریشن پانچویں، لوکل گورنمنٹ کرپشن میں چھٹے نمبر، تعلیم ساتویں، ٹیکسیشن آٹھویں اور این جی اوز بدعنوانی میں نویں نمبر پر ہیں۔ 
ریاست کے بنیادی ڈھانچہ حکومت، مقننہ، عدلیہ اورمیڈیا کو ریاست کے چار ستون کہاجاتاہیں کیونکہ اگر ان چار میں سے ایک بھی چیز نہ ہو توریاست کانظم ونسق چلایاہی نہیں جاسکتا۔ ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ چار وں چیزیں اپنی لائن سے ہٹ کر چل رہی ہیں۔ حکومتی رٹ قائم کرنے کے حوالے سیپاکستان 180ملکوں میں 146ویں نمبر پر ہے، مقننہ کے حوالے سے141ویں، عدلیہ کے حوالے سے130 اور میڈیا کے حوالے سے ہم 84ملکوں میں 72 ویں نمبر پر آتے ہیں۔ ایسے میں جب عالمی انڈیکس میں پاکستانی پاسپورٹ کی رینکنگ میں گراوٹ آتی جارہی ہے، پاکستانیوں کو ویزے کے حصول کیلئے مزید سختیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ستم ظریفی جس دن میڈیا میں ہینڈلے کی حالیہ رپورٹ منظر عام پر آئی، اْسی روز حکومتی وزیر کا یہ بیان سامنے آیا کہ حکومت نے ترکی اور دوسرے یورپین ممالک کی طرز پر غیر ملکیوں کو مستقل رہائش کی سہولت دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسے غیر ملکی جو پاکستان میں پراپرٹی میں ایک لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گے، وہ پاکستان میں مستقل شہریت اور پاسپورٹ کے حقدار ہوں گے۔ اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زائد سرمایہ کاری کرنے والوں کو 5 سے 10 سال تک کی رہائش یا مستقل شہریت دی جاسکے گی۔حکومت کو امید ہے کہ افغانستان کے دولت مند افراد اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اسی طرح دنیا بھرمیں مقیم سکھوں کی بڑی تعداد پاکستان میں اپنے مقدس مقامات ننکانہ صاحب، کرتاپور اور حسن ابدال میں سرمایہ کاری کی خواہشمند ہوگی جس پر اْنہیں پاکستان میں مستقل رہائش مل سکے گی جبکہ چینی افراد بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ 
70ء کی دہائی تک پاکستانی پاسپورٹ کا شمار مضبوط پاسپورٹس میں ہوتا تھااور پاکستانی شہری برطانیہ سمیت بیشتر یورپی ممالک بغیر ویزایاویزاآن آرائیول سفرکرسکتے تھے۔پاکستانی پاسپورٹ کی ساکھ کو سب سے زیادہ نقصان سوویت افغان جنگ کے بعد پہنچا جب لاکھوں افغان پناہ گزینوں، جرائم پیشہ، انسانی سمگلنگ اور غیر قانونی طور پر مقیم دیگر باشندوں نے رشوت کے عوض پاکستانی پاسپورٹس حاصل کئے۔جب یہ افراد غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے اور سنگین جرائم میں ملوث پکڑے جاتے تو اْنہیں پاکستانی تصور کیا جاتا جس سے پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں بدنام ہوا۔ حالت یہ ہے کہ ہینڈلے پاسپورٹ انڈیکس کی عالمی درجہ بندی میں اس سال جاپان اور سنگاپور کے پاسپورٹ ایک مرتبہ پھر دنیا کے طاقتور ترین پاسپورٹ قرار پائے جن کے شہری 192 ممالک میں بغیر ویزا یا ویزا آن آرائیول سفر کرسکتے ہیں جبکہ پاکستان، شمالی کوریا، صومالیہ اور یمن سے بھی نیچے108نمبر پرہے۔ پاکستان کے بعد شام 109، عراق 110اورافغانستان 111 ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے شہری صرف 31 ممالک میں ویزا فری سفر کر سکتے ہیں۔ اسی انڈیکس میں بھارتی پاسپورٹ 83 ویں پوزیشن پر ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ایک طرف وطن عزیز کے بائیس ہزار سے زیادہ اہم عہدوں پر تعینات افسران نے امریکہ کینیڈا، انگلینڈ وآسٹریلیا کی شہریت لے رکھی ہے۔سپریم کورٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق دوہری  شہریت والے افسران کی تعداد 22 ہزار 380 ہیان میں 1100 کا تعلق صرف پولیس اور بیوروکریسی سے ہے اور ان میں سے540 کینیڈین، 240 برطانوی، 190 کے قریب امریکہ کے بھی شہری ہیں درجنوں سرکاری ملازمین نے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائیشیا اورآئرلینڈ جیسے ملکوں کی بھی شہریت لے رکھی ہے۔110 سرکاری افسروں میں اہم حکومتی عہدوں پر بھی براجمان ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے اس پہ  نوٹس بھی لیا تھا کہ جنھوں نے دوران ملازمت کسی دوسرے ملک کی شہریت لے رکھی ہے یا وہ فوری طور پر اپنی غیرملکی شہریت چھوڑیں یا ملازمت مگر ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ھوسکا ہے۔ ان حالات میں جب پاکستان کا اشرافیہ خود توغیر ممالک میں رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہا ہے جہاں اسے مستقل رہائش اورپاسپورٹ کا حصول ممکن ہے،ان ممالک میں ترکی سرفہرست ہے جہاں دو سے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری پر مستقل رہائش اور صرف ایک سال میں ترکش پاسپورٹ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یو اے ای حکومت کی ایک اسکیم کے تحت بھی یو اے ای میں رئیل اسٹیٹ یا کسی بھی شعبے میں 2 ملین درہم کی سرمایہ کاری کرنے پر پوری فیملی گولڈن ویزا حاصل کرسکتی ہے۔ جسکی مدت 10 سال ہوتی ہے، کون سمجھدار پاکستان میں مستقل شہریت اور پاسپورٹ کے حصول کے لیے اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زائد سرمایہ کاری کریگا۔ لوگ اْن ممالک میں لاکھ یا دو لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کرتے ہیں جنکے پاسپورٹ مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں تاکہ انہیں ویزوں کے حصول سے چھٹکارا مل سکے۔ یہ دیوانے کا خواب یاحکومت کی خام خیالی تو ہوسکتی ہے لیکن ملک کی موجودہ معاشی و معاشرتی صورتحال، کرپشن، لااینڈ آرڈرابتری، پاکستانی پاسپورٹ کی دنیا بھر میں تنزلی اور کمزور ترین رینکنگ دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ غیر ملکی شہری اس اسکیم میں دلچسپی لیں گے، جس سے یقیناً قومی سبکی ہوگی۔