قومی سیاست پر چھائی دھند

قومی سیاست پر چھائی دھند

قومی سیاسی منظر پر چھائی ہوئی دھند بڑھتی چلی جا رہی ہے، افق پر نظر آنے والی تحریک عدم اعتماد بھی ابھی تک گہری دھند میں لپٹی نظر آ رہی ہے ،نمبر گیم کی اصلیت ابھی تک واضح نہیں .'۔ اپوزیشن کے کنفرم حمایتی ابھی تک 162 ہی ہیں لیکن تاثر یہ ہے کہ حکمران اتحاد بکھر چکا ہے ۔ حکمران جماعت میں بغاوت ظاہر ہو چکی ہے باغی کھل کھلا کر سامنے آ چکے ہیں ان میں سے کچھ کو شوکاز بھی جاری کیا جا چکا ہے۔ حکمران 63اے کا واضح معاملہ سپریم کورٹ میں لے جا چکے ہیں۔ سپیکر اپنے بیانات کے ذریعے اپنی غیرجانبداری کو تار تار کر چکے ہیں اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے حوالے سے سپیکر آئین شکنی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے بنچ کی تشکیل کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ خط لکھ چکے ہیں جس کے مطابق اس بنچ کی تشکیل درست انداز میں نہیں کی گئی ہے۔ حکمران جماعت اور اس کے حواری دواری جس طرح کی زبان درازیوں میں مصروف ہیں اس سے ان کی بوکھلاہٹ عیاں ہوتی ہے۔ حکومت تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے گھبراتی نظر آ رہی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ممبران کو ان کا حق رائے دہندگی استعمال کرنے سے ڈرایا، دھمکایا اور روکا جا سکے۔ فریقین پاور شو کر رہے ہیں۔ لیکن اصل معاملہ تو پارلیمان کے اندر طے کیا جانا ہے وہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہاں کیا ہو گا؟ کیسے ہوگا؟نتیجہ کیا نکلے گا؟
عمران خان صاحب ایک طویل جدوجہد کے بعد ایک بیانیہ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوئے تھے وہ تھا کرپشن اور کرپٹ مافیا کے خلاف جدوجہد۔ یہی وجہ ہے کہ 2018ء کے عام انتخابات میں انہوں نے اسی بیانیے کی بنیاد پر شاندار الیکشن مہم چلائی اور پھر نتیجے کے طور پر ممبران پارلیمنٹ کی ایک قابل ذکر تعداد کی حمایت حاصل کر کے وہ ایوان اقتدار میں پہنچائے گئے لوگوں کو لگا کہ اب ان کے مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ انہوں نے بیانیہ وہی رکھا۔ کرپٹ اور لٹیرے ختم کر کے مسائل حل کروں گا۔ منی لانڈرنگ اور رشوت کے خاتمے کے بعد ملک ترقی کرے گا۔ زرداری، شریف وغیرہم کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہی دھوم دھڑکا اپوزیشن کو ایک صف میں اکٹھا کر گیا جو تحریک عدم اعتماد کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ تحریک عدم اعتماد نے ملک میں عدم اعتماد کی فضا کو اور بھی گہرا کر دیا ہے ہر طرف اس بات کے چرچے ہیں ہر ایک کی دلچسپی صرف ایک بات میں ہے کہ کیا تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا عمران خان بچ جائے گا؟ 
عمران خان کے بعد کیا ہو گا۔ نیا وزیراعظم کیا کرے گا؟ پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد آ چکی، نیا وزیراعلیٰ کون ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہماری قومی صحافت اور ہوائوں فضائوں میں یہی چرچے ہیں آگے کیا ہونے والا ہے؟ کیا ہو سکتا ہے؟
اسی گہما گہمی میں اسلامک وزراء خارجہ کونسل کا 48واں اجلاس گزر گیا۔ یہ ایک بہت بڑا ایونٹ تھا اس سے ہمیں یعنی پاکستان کو جو بوسٹ ملنا تھا جو عروج ملنا تھا جو فائدہ حاصل ہو سکتا تھا وہ نہیں ہو سکا۔ 23 مارچ کی تقریبات کے ذریعے جو مثبت فضا اور ماحول پیدا کیا جا سکتا تھا وہ نہیں کیا جا سکا۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تک، ہر شہری اسی طرف لگا ہوا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟ حکمران سیاستدان ہوں یا اپوزیشن والے سب ایک ہی سمت میں بڑی یکسوئی کے ساتھ محو سفر ہے اور وہ ہے تحریک عدم اعتماد ایسے ماحول میں کسی نے 8 مارچ 2022 کو امریکی کانگریس میں سکاٹ پیری کی طرف سے ایوان نمائندگان میں ’’پاکستان کو دہشت گردوں کی معاون ریاست قرار دینے کا بل‘‘ پیش کر دیا ہے جسے طے شدہ طریق کار کے مطابق ’’امور خارجہ کمیٹی‘‘ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ 117ویں کانگریس کے دوسرے سیشن میں یہ بل پیش کیا گیا جسے مزید کارروائی کے لئے خارجہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے جو اس پر کام کرنے کے بعد اسے ایوان نمائندگان میں منظوری کے لئے پیش کرے گی پھر سینٹ کی منظوری اور صدر کے دستخطوںکے بعد قانون بن جائے گا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان کو ملنے والی امریکی امداد پر پابندیاں لگ جائیں گی۔ پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی برآمدات اور فروخت اور مالی لین دین پر پابندیاں عائد ہوں گی۔ اس بل کی منظوری کے بعد ہماری معیشت اور دفاع پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، ہمارے عالمی زری اور مالیاتی اداروں کے ساتھ جاری معاملات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایسے ہی دیگر ادارے بشمول فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ ایسے اہم اور حساس معاملات کے بارے میں ہمیں سوچنے سمجھنے کی فرصت ہی نہیں ہے۔ ہمارے تمام ریاستی اور ملکی اہم ادارے اور افراد سیاسی معاملات، سلجھانے یا الجھانے میں مصروف ہیں۔ روس، یوکرین جنگ کے عالمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتیں اوپر جاتی نظر آ رہی ہیں۔ یورپی ممالک میں اناج، اشیاء ضرورت بشمول گیس کی راشننگ شروع کی جا چکی ہے۔ یورپ ایک بحرانی کیفیت کا شکار ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی میں طلب و رسد کی قوتیں باہم پیکار ہو چکی ہیں۔ ہماری معیشت پہلے ہی مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ کھانے کا تیل ہو یا جلانے کا تیل، عامتہ الناس کی پہنچ سے دور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے۔ رمضان کی آمد آمد ہے جن کی غراہٹ سنائی سنائی دے رہی ہے رمضان المبارک میں سحری و افطاری کے اوقات میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتیں اوپر جانے لگی ہیں۔ کسی کو کچھ فکر نہیں ہے پاکستان کو دہشت گردی کی معاون ریاست قرار دینے کا بل اگر پاس ہو گیا تو اس کے ریاست پاکستان، مملکت پاکستان اور پاکستان کے عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ان سے ہم کیسے نمٹیں گے، عوام کو ان اضافی منفی اثرات سے کیسے بچا جائے گا؟ اس حوالے سے کچھ بھی ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ہم سب حکومت گرانے اور حکومت بچانے میں مصروف ہیں ہمیں مملکت اور اس میں بسنے والے 230 ملین شہریوں کے حال اور مستقبل کی کوئی فکر نہیں ہے ۔  اللہ خیر کرے

مصنف کے بارے میں