معصوم شہری ا ور مکار پولیس

معصوم شہری ا ور مکار پولیس

پنجاب پولیس کا محکمہ جس کی سربلندی کے لیے جوانوں اور افسران تک نے اپنی جانوں کی قربانیاںدیں ،آخر عوام میں اپنا وہ مقام کیوں نہیں بنا پارہا جس کا وہ حقدار ہے ؟یہ وہ سوال ہے ۔جو ذہنوں کو جھنجھوڑتا ہے! کیا وجہ ہے کہ قربانیوںکے باجود آج بھی عوام پولیس کو نفرت یاناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔راقم الحروف کو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ کرائم رپورٹنگ کرتے ہوئے گزر گیا۔بطور اینکر یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ پروگرام ’’تھایندار‘‘کے دو سو سے زائد اقساط کیے جس میں جوانوں ،اعلی افسران کو بہت قریب سے دیکھا اور آف دی ریکارڈ انہوں نے اپنے دل کی بہت سیباتیں کیں جس سے حقیقت کو بہتر طور پر جاننے کا موقع ملا کیونکہ اچھا صحافی وہی ہوتا ہے جو خبر کا ایک رخ سے بلکہ اس کے ہر پہلو کا جائزہ لے کر حقیقت نہ صرف کو عوام بلکہ افسران بالا کے سامنے بھی لے کر آئے۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ پولیس کیسے بے گناہ لوگوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنساتی ہے اور بدمعاش،قاتل ،ڈاکو اور چوروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے کیوںڈر جاتی ہے ،اگرگن پوائنٹ پرشہری سے واردات ہو جائے تو پولیس یہ کہتی نظر آتی ہے کہ یہ جھوٹ ہی ہو جائے ،کسی بھی تھانے کے اے ایس آئی ،سب انسپکٹر ،ایس ایچ او ،سرکل ڈی ایس پی اورایس پی سب کی392،395کا مقدمہ درج کرنے میں جان جاتی ہے ، پولیس ملازمین افسران بالا کو ہی نہیں بلکہ کانسٹیبل سے لے کر آئی جی پنجاب تک سب عوام کو بھی جوابدہ ہیں۔
عوام اور افسران بالا کے سامنے ایک ایسا آنکھوں دیکھا حال اورواقعہ بتانے جا رہا ہوں۔کہ آپ سب بھی مثالی پولیس کی مکاری اور جعلسازی جان کر پولیس سے مزیدنفرت کرنے لگ جائیں گے ،مگر میں اس کے حق میں ہوں کہ سچائی کے ساتھ حقائق سامنے رکھوں۔پتنگ بازی کے خونی کھیل میں نامعلوم سمت سے آنے والی ڈور 5سالہ معصوم بچی کی انگلی پرچیرا چھوڑ جاتی ہے ،موٹر سائیکل پر بیٹھے باپ اپنی پیاری بیٹی کی انگلی سے خون نکلتا دیکھ کر پریشانی کی حالت میں اسپتال جاتا ہے اس کی پٹی کرواتا ہے اور ون فائیو پر پولیس کو پتنگ بازی سے ڈور پھرنے سے بچی کی حالت کے بارے میں بتاتا ہے۔پولیس کا کام تھا کہ وہ پتنگ بازوں کا سراغ لگاتی اسے پکڑتی ،قانون کے مطابق کارروائی کو یقینی بنایا جاتا اور مدعی اور اسکی زخمی بیٹی کو انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتی ،مگر ایسا نہیں ہوا۔
سرکل ڈیفنس ،کینٹ ڈویڑن میں تھانہ فیکٹری ایریا کے حدود میں جمعہ شب رات گیارہ بجے ڈور پھرنے کا واقعہ رونما ہوا،ایک بجے کے قریب پولیس مدعیوں کے ہمراہ ایک ایسی کالونی پہنچی اور وہاں ایک گھر کادروازہ کھٹکھٹائے بغیر ہی دیوار پھلانگ کر گھر کی چھت پر پہنچ گئے ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہاں سے پتنگ اْڑاتے پتنگ باز کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے مگر پولیس ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ناکام رہی ،کیونکہ پولیس مجرم پکڑنے میں نہیں بنانے میں اہم اور نمایاں کردار ادا کر رہی ہے ، پھرہوا یوں کہ پولیس نے اپنی اس ناکامی کو چھپانے اورمعطلی سے بچنے اور افسران کی ڈانٹ ڈپٹ اور نوٹس سے ڈرتے ہوئے گھر میں سوئے ایک معصوم شہری کو جگایا ۔اس پر الزام لگایا کہ آپ کی چھت پر پتنگ اْڑ رہی ہے ،وہ شہری ہکا بکا رہ گیا کہ میں تو سویا ہوا ،کسی اورکی چھت استعمال ہوئی ہو گی ،وہ کہنے لگا میں سویا ہوا تھا اس کے باقی دو بھائی گھر سے باہر کھانا کھانے گئے جو یہاں موجود نہیں ہیں ،پولیس وہاں موجودرہی ،شہری کو گلی میں کھڑا کر دیاکہ اگر آپ نشاندہی کر دیں کہ کون پتنگ بازی میں ملوث ہے توآپکو چھوڑ دینگے۔ وہ فیکٹری ایریا تھانہ کے اے ایس آئی عباس علی کو تکنے لگا اور منت سماجت کرتا رہا کہ میں تو خود اپنی 4سالہ اور 2سالہ بیٹیوںاوربیوی کے ساتھ کمرے میں تھا مجھے کیا پتا کہ وہ پتنگ باز کون ہوگا۔کس کی چھت ہے ،چھوٹے چھوٹے گھرہیں وہاں کئی چھتیں آپس میں ملتی ہیں۔دیکھتا تو ضرور بتاتا ،کم عمر بیٹیوں کے قسمیں کھا کر پولیس کو یقین دلاتا رہا کہ وہ نہیں جانتا۔مگرپولیس تو پھر پولیس ہے نا ،جوجھوٹا مقدمہ بنانے میں ماہرانہ صلاحتیں رکھتی ہے۔اس دوران مجھے فون آتا ہے کہ پولیس گھر میں زبردستی داخل ہوئی ،اور مجھ پر پتنگ بازی کا الزام لگا رہی ہے۔میں وہاں پہنچا ،اے ایس آئی عباس علی سے بات کی تو وہ کہنے لگا کہ وہ اس کو تھانہ ساتھ لے کر جانا چاہتا ہے۔میں نے سوال کیا کہ کیوں ،کس کیس میں ؟اے ایس آئی خاموش رہا،پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد اے ایس آئی بولا کہ اس گھر والے کو تھانہ لیجانا ہے ،مبینہ پولیس مقابلے تو سنے ہی تھے مبینہ ملزم بناتے ہوئے لائیو مناظر دیکھ کر دکھ بھی ہو رہا تھا، اس دوران میں نے ایس ایچ او فیکٹری ایریا اسد عباس کو کال ملانے کی کوشش کی تو نمبر بند تھا ،ڈی ایس پی کو کال ملائی تو بات ہوئی اور اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ پولیس اصل ملزم کو پکڑنے میں ناکام ہو گئی اور معصوم شہری پر پتنگ بازی کا الزام لگا کر ساتھ تھانہ لیجانے پر بضد ہے جس پر ڈی ایس پی غلام دستگیر نے اے ایس آئی سے رابطہ کیا ،اور ڈی ایس پی نے سچ جھوٹ کو سمجھے بغیر ہی مجھے یہ کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں ویسا بالکل بھی نہیں ،ڈی ایس پی غلام دستگیر جو ایک اہم سیٹ پر موجود ہیں انہوں نے فوری مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔اور پھر پولیس نفری کہنے لگی کہ یہ شہری ہمارے ساتھ تھانہ میں جائے گا ، اس دوران اور بھی لوگ جمع ہونے لگے۔میرا سوال تھا کہ اگر یہ ملزم نہیں ہے تو تھانہ میں کیوں جائے ،اور ہاں جس کی پتنگ سے باپ کی پیاری بیٹی زخمی ہوئی ،اس کا سراغ لگایا جائے ،گرفتار کیا جائے ،مقدمہ درج کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔یا جو پتنگ بازی کرتے ہوئے پولیس نے پکڑا ، اس پر بھی قانونی کارروائی عمل میں لاتے ہوئے تھانہ کی حوالات میں بند کیا جائے۔ 
پھر مجھے خیال آیا کہ گلی میں لوگ جمع ہونے لگے ہیں ،پولیس سے بحث کی جائے نہ ضد لگائی جائے اورشور شرابا یا پولیس کو بْرا بھلا کہا جائے ،پولیس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس معصوم شہری کودرخواست کی کہ تھانہ چلتے ہیں وہاں جا کر بات کر لیتے ہیں۔اس بات پر وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا ،اور اے ایس آئی عباس علی کہنے لگا کہ میں بھی آپکی گاڑی میں بیٹھ جائوں،تو میںنے برملا بولا، کیوں نہیں آپ ضرور بیٹھئے۔راستے میں جاتے ہوئے میں نے اے ایس آئی کو کہا کہ گلی سے بے گناہ شہری کو تھانہ ساتھ لیجانے پر پولیس اور گلی والوں میں معاملہ بگڑ سکتا تھا ،لیکن آپکی اور محکمہ کی عزت کی خاطر میں وہاں سے بے گناہ شہری کو تھانے لے جا رہاہوں۔اگر میں نے عزت کا خیال رکھا ہے تو بدلے میں بے گناہ شہری کو چھوڑ کر ہمیں بھی عزت دی جائے ،اے ایس آئی عباس علی کہنے لگا کہ وہ مدعی کو بتا دے گا کہ یہ بے گناہ شہری آپکے کیس میں ملوث نہیں ہے!      

جب ہم تھانہ فیکٹری ایریا پہنچے وہاں اے ایس آئی ہیلے بہانے کرنے لگا ،ٹال مٹول کرنے لگا ،مدعی آدھے گھنٹے بعد تھانہ پہنچا اور بات چیت ہوئی کہ پولیس جس شہری کو لائی ہے وہ پتنگ باز نہیں ہے ،مدعی کہنے لگا کہ آپ جاوٗ جو اصل ملزم ہے اس کا سراغ لگانے کی کوشش ضرور کرنا ،شہری نے بچی کے والد کو یقین دلایا کہ میری چھت کے ارد گرد جو بھی ہوا ،میں جانچ پڑتال کر کے پولیس ہی نہیں آپکو کو بھی بتادوں گا۔جب یہ فیصلہ اے ایس آئی عباس علی کے سامنے رکھا تو اس نے بات سننے سے ہی انکار کر دیا۔میں اے ایس آئی کا رویہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو گیا کہ میں خود بے گناہ شہری کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر تھانہ میں گیا اور اب یہ بات سننے اور کرنے کو تیار ہی نہیں۔
اس دوران وہاں وائرلیس سیٹ تھامے اے ایس آئی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بولنے لگا کہ کہ سی سی پی او لاہور جاگ رہے ہیں ،وائرلس پر کالیں چلوا رہے ہیں کہ شہر میں پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیں ،اس دوران ترجمان لاہور پولیس کی جانب سے ٹیکر ز بھی جاری ہوگئے کہ سی سی پی او فیاض احمد دیو نے ڈی آئی جی آپریشنز عابد کوہدایت کی ہے کہ کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پھر کیا ہوا نامعلوم سمت سے آنے والی ڈور سے زخمی بیٹی کے والد کو مجبور کیا جانے لگا کہ یہی آپکا ملزم ہے ،مدعی کہنے لگا کہ یہ ہمارا ملزم نہیں ہے ،پھراے ایس آئی اور مدعی میں بحث و تکرار ہونے لگی کہ وہ کسی بے گناہ شہر ی پر مقدمہ درج نہیں کروائے گا پولیس اصل ملزم کو پکڑ کر ہی انصاف فراہم کرے۔اس بات پر اے ایس آئی کو ایس ایچ او ،ڈ ی ایس پی اور ایس پی کے آپریٹر کی کال آئی ،فوری مقدمہ درج کرو ،جان بچاوْ۔سی سی پی او کے نوٹس پراے ایس آئی عباس علی ،ایڈیشنل ایس ایچ او اسد عباس ،ڈی ایس پی سرکل ڈیفنس غلام دستگیر اور ایس پی کینٹ آپریشنز عیسی خاں سکھیرا نے میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بے گناہ شہری پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کرت ہوئے نامزد ملزم بنا دیا۔
میں حیران ہو گیا اور سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کس قدر گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،کہ سی سی پی او کے نوٹس پر اپنی معطلی سے بچتے ہوئے بے گناہ شہری پر مدعی کو زبردستی خالی درخواست پر دستخط کروائے اورنا صرف جھوٹا مقدمہ درج کیا بلکہ تصویر کھینچ کر سی سی پی او ،ڈی آئی جی آپریشنز ،ایس ایس پی آپریشنز کو واپسی کال دی گئی کہ اصل ملزم پکڑ لیا گیا۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب تقریبا ایک بجے سے چھ بجے تک یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ لوگ جو تھانہ جانے سے پہلے مجھ سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ کوئی ہے تھانے میں جاننے والا تو میں کہتا تھا کہ کام میرٹ پر ہو گا تو خود ہی ہو جائے گا اور اگر نہیں ہوگا تو نہیں ہو گا ،یہ کہہ کر میں کئی بار متعلقہ افسران سے درخواست بھی کر دیتا کہ میرٹ کی بات نہیں کروں گا بلکہ یہ کہوں گا کہ حق دار کو اس کا حق دے دینایعنی انصاف کرنا۔لیکن اس بار تھانہ میں گیا، اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس نہ صرف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لئے مدعی سے اصرار کرتی رہی ،بلکہ دھمکیاں دیتے ہوئے فیکٹری ایریا تھانہ میں مقدمہ چھ گھنٹے بعد درج بھی کر دیا گیا۔مگر عدالت پیش ہونے پر مدعی نے بیان دیا کہ یہ میرا ملزم نہیں ہے اور رہائی یقینی ہو گئی ،عدالت نے جب ایف آئی آر دیکھی تو ریمارکس دیئے کہ یہ مقدمہ کس بے وقوف نے درج کیا ہے‘ یہ میرٹ پر تو اقدام قتل بنتا ہی نہیںصرف اپنی ہی نہیں اے ایس آئی عباس علی نے مقدمہ درج کر کے ایس ایچ او ،ڈی ایس پی سرکل ڈیفنس غلام دستگیر اور ایس پی آپریشنز کینٹ عیسی خان سکھیرا کو معطلی سے بچا لیا ،مگر بے گناہ شہری کا کریمینل ریکارڈ بنا دیا۔یہ ہے مکار پولیس ! 
بات ہو رہی تھی جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی ،تو ہاں اے ایس آئی نے تھانے میںمیری ہی نہیں اپنے پیٹی بھائیوں کے سامنے ہی مدعی کو دھمکا کر بے گناہ شہری پر مقدمہ درج کرنے کے لئے مجبور کیا گیا وہاں موجود پولیس جوانوں کی طرف میں دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے وہ بھی کہنے لگے کہ ایسا میں نے بھی پہلی بار دیکھا ہے ،یقینا یہ پہلی بار میں نے دیکھا ،پولیس ملازمین معصوم شہریوں پر جھوٹے مقدمات بنانے کے عادی مجرم بن چکے ہیں ،لہذا ایسے پولیس ملازم اور افسر پر محکمانہ ہی نہیں قانون کارروائی کو بھی یقینی بناتے ہوئے مثالی پولیس بنانے کے لیے اس واقعہ پر نظر ثانی ہی نہیں شدید تبدیلی کی ضرورت لازم ہے۔لاہور پولیس کے شاطرانہ انداز و بیان نے ثابت کر دیا کہ جب تک محکمہ میں ایسے پولیس ملازم جو اپنا ضمیر بیچنے میں عار محسوس نہیں کرتے ،اچھے برے کی تمیز نہ رکھتے ہوں ،انصاف کوپیسوں کے ترازو میں تول کر دیتے ہوں ،جھوٹا مقدمہ درج کرنے میںڈرتے نہ ہوں، یہ سب محکمہ کی ان قربانیوں کو ضائع کرنے کے مجرم ہیں جو اسی محکمہ کے اہلکاروں‘ افسروں نے اسکی سربلندی کیلئے دی ہیں۔ پولیس کی جعلسازی ، ناروا سلوک اوربدنظمی سمیت پولیس کے رویہ سے بیزار ہونے والوں میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔

مصنف کے بارے میں