کس نے پاکستان کو ریاض اجلاس میں نظر انداز کیا؟

کس نے پاکستان کو ریاض اجلاس میں نظر انداز کیا؟

 ریاض میں مذاکرات   تاریخی کانفرنس تھی. چھپن ممالک کی موجودگی میں پاکستان کو پروٹوکول اور عزت دونوں دیئے گئے. اس میں نہ تو پاکستان کی کوئی توہین ہوئی، نہ ہی ہمیں نظر انداز کیا گیا. پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو سعودیہ إمارات مصر اردن اور ترکی جیسے سرد جنگ کے روایتی امریکی حلیف اور اتحادیوں کیطرح خاص پروٹوکول دیا گیا. سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملنے امریکی اور 55 ممالک کے وفود کوشاں رہے۔

ریاض کانفرنس کا دار و مدارداعش کے خلاف جنگ، انتہا پسند نظریہ کا خاتمہ، اور ایران کی دوسرے اسلامی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں تھا۔ اس اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے مسلمان ممالک کی نمائندگی تھی۔ عراق وآذربائیجان بھی تھے اور مصر وپاکستان بھی۔ یہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ مغربی دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور عالم اسلام کی اہم قوتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں۔ اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کا موقع ملا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ ایک امریکی صدر نے مسلمان ممالک کے بارے میں سابقہ امریکی پالیسیاں مسترد کیں جس میں امریکہ جمہوریت کا بہانہ بنا کر عرب اور مسلم ممالک میں مداخلت کرتا تھا۔

صدر ٹرمپ نے واضح طور پر اعلان کیا کہ امریکہ اپنی سوچ اور سیاسی نظام مسلط کرنے نہیں آیا بلکہ وہ عرب اور مسلم ممالک کی حکومتوں کا احترام کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ یہ تمام باتیں امریکہ کی سوچ میں بڑی تبدیلی کی علامت ہیں اور اسکا کریڈٹ صدر ٹرمپ کو جاتا ہے۔

ریاض کانفرنس کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اب تک مسلمان ممالک پر شدت پسندی کی فنڈنگ کرنے کا الزام لگتا تھا۔ اب یہ ممالک مل کر انتہا پسند نظریہ کے خاتمے کی فنڈنگ کرنے جارہے ہیں۔

میرا نہیں خیال کہ پاکستانی میڈیا میں ریاض مذاکرات کے حوالے سے جو شور مچایا گیا ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔ میں نے خود جو اس کانفرنس کے حوالے سے تحقیق کی ہے، اس میں مجھے کوئی ایسی چیز نہیں ملی جس سے میں کہہ سکوں کہ ہمارے کچھ حلقوں کے خدشات صحیح ہیں۔

خطاب کرنے کا موقع 56 ممالک میں سے مشکل سے پانچ ممالک کو ملا. اسکی وجہ بہت سادی سی ہے. چھپن ممالک کے صدارتی وفود کی بیک وقت موجودگی ایک بڑا انتظامی مسئلہ تھا. اس میں سیکورٹی اور تنظیمی الجھنے ہیں. اتنے ممالک کے صدور کے استقبال اور الوداع میں وقت نکل گیا. پھر کئی ممالک کی سفارتی ٹیمز پہلے سے سعودیہ میں موجود تھیں اور وہ اپنے صدور کیلئے خصوصی رعائتیں مانگ رہی تھیں. کچھ وقت کی کمی اور کچھ پاکستانی سفارتی رابطوں میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان ان 50 ممالک میں تھا جو خطاب نہ کرسکے. اس میں نہ تو کوئی توہین کی بات تھی اور نہ ہی کسی نے پاکستان کو نظر انداز کیا، اور نہ ہی پاکستان نے اس بات کا برا منایا ہے۔ سعودی حکام نے وہیں تمام وفود سے وقت کی کمی کے باعث معذرت کرلی تھی۔ چین اور ترکی کی طرح سعودی عرب پاکستان کا قریبی اتحادی ملک ہے۔ اگر ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ موجود سفارتی ٹیم سعودیوں سے مختصر خطاب کیلئے اصرار کرتی تو کسی نے اعتراض نہیں کرنا تھا۔ یہ عین ممکن ہے کہ پاکستانی سفارتکاروں نے دوسرے شریک ممالک کی طرح میزبان ملک کی مجبوریاں سمجھتے ہوئے اصرار نہیں کیا۔

اسی طرح صدر ٹرمپ پر پاکستان کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا گیا ہے.

میری نظر میں جس طریقے سے پاکستانی میڈیا نے ٹرمپ کے خطاب کے بعد خود یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان کو نظر انداز کیا گیا، غیر مناسب تھا۔ ممکن ہے کہ ٹرمپ نے واقعی نظر انداز کیا ہو لیکن ہمیں خود اپنی جگ ہنسائی کروانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کسی انٹرنیشنل میڈیا ادارے نے پاکستان کو نظر انداز ہونے کی خبر نہیں چلائی۔ کسی نے یہ بات سوچی نہیں تھی جب تک پاکستانی میڈیا نے خود کہنا شروع نہیں کیا تھا، اور اس کے بعد ہی انڈین میڈیا نے اس خبر کو اچھالنا شروع کیا اور پاکستان پر طنز کرنا شروع کردیا تھا۔ ہمارے اور امریکہ کے درمیان شدید نوعیت کے اختلافات اب بھی موجود ہیں، اسی لئے ٹرمپ سے پاکستان کے حق میں اس سٹیج پر کوئی بڑی تعریف کی توقع رکھنا احمقانہ بات تھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بحیثیت حکومت، میڈیا اور قوم ہم نے اپنے تمام پتے ہلیری کلینٹن اور اوباما کی تھالی میں ڈال دئیے تھے۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں نے ٹرمپ انتخابی مہم کا بائیکاٹ کیا اور ہمارے لوگ آخری وقت تک ٹرمپ کا طنز کرتے رہے۔ ریاض مذاکرات میں دوسرے عرب اور مسلمان ممالک نے بہت پہلے سے ٹرمپ ٹیم کے لوگوں سے ملنا شروع کردیا تھا۔ یہ کام پاکستان نے تاخیر سے شروع کیا جب طارق فاطمی صاحب نے ٹرمپ انتظامیہ کے لوگوں سے بیک چینل رابطے استوار کئے۔ لیکن ٹرمپ کے حوالے سے عموما  ہماری سفارتکاری سست روی کا شکار رہی ہے۔

اپنے خطاب میں  ٹرمپ نے ایک جگہ دہشتگردی کیخلاف اچھی کارکردگی پر چھوٹے مسلمان ممالک کا ذکر کردیا جو عام طور پر نظر انداز ہوجاتے ہیں، جیسے اردن لبنان کویت. ٹرمپ نے اس حوالے سے مصر کا ذکر نہیں کیا، نہ ہی نائجیریا ترکی اور انڈونیشیا کا. یہ وہ بڑے مسلمان ممالک ہیں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی گئی ہیں. ان بڑے مسلمان ممالک کا نام دنیا کے اس ممالک کی لسٹ بھی نہیں تھا جو دہشتگردی کا شکار بنے جن میں ٹرمپ نے بھارت کا نام شامل کیا۔  ترکی اور مصر کا دوسرے حوالوں سے امریکی صدر کے خطاب میں کہیں نہ کہیں ذکر ہوا۔ 

یہ وہ ممالک ہیں جن کے رہنما اپنے مفادات کیلئے لڑتے جھگڑ تے ہیں. حتیٰ کہ عراقی اور افغان حکام، جو ایک طرح سے امریکی پٹھو ہیں اور اپنی بقاء کیلئے امریکہ کے مرہون منت ہیں، وہ بھی امریکیوں سے اپنی باتیں منواتے ہیں. واحد پاکستانی حکام اور لیڈرز ہیں جن کی باتوں سے نہیں پتہ چلتا کہ یہ ایک بڑے طاقتور ملک کہ نمائندہ ہیں. ہم جب اپنے مفادات کیلئے نہیں کھڑے ہوتے، تو دوسروں سے کیا توقع رکھنی.

اچھی بات ہوتی اگر صدر ٹرمپ پاکستان کا کسی بھی حوالے سے ذکر کر دیتے جیسے دوسروں کا کیا. لیکن دہشتگردی کے حوالے سے انھوں نے میزبان ملک کے علاوہ چھوٹے ممالک کا ذکر کیا اور تمام بڑے مسلمان ممالک کو بھول گئے. اسکے باوجود ان ممالک میں سے کسی نے ایسا شور نہیں مچایا جیسے ہمارے میڈیا کے کچھ حلقوں میں ہوا۔ ہمیں اس بات کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہئے تھی۔

ریاض مذاکرات کے بعد پاکستانی میڈیا کے اندر سے پاکستان کو چھوٹا دکھانے والا بیانیہ آنا ایک منظم نفسیاتی جنگ سے کم نہیں. اس میں زیادہ کردار کم علمی کا تھا.

لیکن جس منظم طریقے سے یہ بیانیہ پھیلایا گیا، یہ کسی نفسیاتی جنگ سے کم نہیں. سوال یہ ہے کہ پاکستان کی اپنے میڈیا کے ذریعے تضحیک کس کے مفاد میں تھی؟ 50 ممالک کا نہ ٹرمپ نے ذکر کیا اور نہ انھے خطاب کرنے کا موقع ملا، تو پھر ہمارے میڈیا میں کس نے یہ بیانیہ پیش کیا کہ ہماری بڑی تذلیل ہوگئے ہے اور ہمارے وزیراعظم کو خطاب کرنے سے روکا گیا ہے؟

احمد قریشی پاکستانی صحافی، محقق اور مصنف ہیں جو  ںیو ٹی وی نیٹ ورک کے ساتھ منسلک ہیں۔
اور ایٹ کیو پروگرام کے اینکر ہیں۔ انکا پروگرام جمعہ، ہفتہ، اتوار شام آٹھ بجے دیکھا جا سکتا ہے۔
رابطہ کیلئے
ahmed.quraishi@neonetwork.pk
@office_AQpk
FB.com/AhmedQuraishiOfficial
یہ بلاگ بھی پڑھیں: متنازعہ نوٹیفیکیشن کا نقصان

یہ  بلاگ بھی پڑھیں: مشال خان: ایک ضروری وقفہ