حکومت کے اہم مگر غیر مقبول بڑے فیصلے

حکومت کے اہم مگر غیر مقبول بڑے فیصلے

اتحادی حکومت نے بڑے فیصلے کرنے شروع کر دیئے ہیں بظاہر وہ بہت زیادہ خوشگوار نظر نہیں آرہے ہیں پسندیدہ نہیں ہیں لیکن وہ ضروری ہیں انتہائی ضروری ہیں ان کے نتائج اچھے نکلنے کی توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں۔ حکومت اپنے ایسے فیصلوں کا دفاع بھی کر رہی ہے ظاہراً انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے۔ ایسے فیصلے ناگوار مگر ضروری نظر آرہے ہیں۔ دیکھتے ہیں ایسے فیصلے ہماری سیاست، معیشت اور معاشرت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں۔
گزشتہ روز حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دھڑلے دار اضافے کا اعلان کیا۔ پٹرول 30روپے اضافے کے ساتھ 179.88 روپے فی لٹر اور ڈیزل 30روپے اضافے کے بعد 174.15روپے لٹر ہو گیا ہے اس کے ساتھ ہی دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ فی الحقیقت اسے پٹرول بم کہا جا سکتا ہے جو حکومت نے عوام پر گرا دیا ہے گزشتہ سے پیوستہ روز دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات مکمل ہوئے انہوں نے ہماری ساری باتیں ماننے کے باوجود پٹرولیم مصنوعات پر دی گئی اعانت یعنی سبسڈی واپس لئے بغیر معاملات آگے بڑھانے سے قطعاً انکار کر دیا اس سے ظاہر ہوا کہ شاید مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں اور پاکستانی معیشت بند گلی میں چلی گئی ہے لیکن اصل بات جو طے ہوئی کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور پاکستانی وفد وزیراعظم سے ہدایات لے کر فنڈ کو آگاہ کرے گا۔ گزشتہ روز ہونے والا پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ فنڈ کی شرط ماننے کا عملی اظہار ہے گویا معاملات آگے بڑھیں گے۔ فنڈ پاکستان کی ضروریات کے مطابق معاملات کو لے کر آگے چلے گا۔ حکومت کے بڑے فیصلے کا ایک مثبت اور پاکستانی معیشت کی بہتری کے لئے درکار نتیجہ یعنی فنڈ کے ساتھ معاہدہ ہو کر رہے گا۔ فنڈ سے ہمیں درکار قرض بھی مل جائے گا اور فنڈ سے قرض ملنے کے ساتھ ہی دیگر عالمی اداروں اور ممالک سے بھی امداد ملنا شروع ہو جائے گی۔ ہماری جاں بلب معیشت کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل جائے گا۔ پاکستان کا سری لنکا بن جانے کا خدشہ بھی ختم ہو جائے گا۔ امید کی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت قومی معیشت کو بحران سے نکال لے گی۔
دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے یعنی پٹرول بم کے گرائے جانے کے بعد مہنگائی کی ایک بڑی لہر آئے گی۔ ہمارے ہاں پہلے ہی ہیٹ ویو نے تباہی مچا رکھی ہے۔ ہماری زراعت اور نظام آبپاشی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ ’’بندر وائرس‘‘ کے پھیلائو کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے ہمیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ’’ٹنکی وائرس‘‘ ویو نے پاکستان میں 100سے زیادہ افراد کو متاثر کر دیا ہے گویا کورونا وائرس کی طرح بندر وائرس بھی یہاں پہنچ چکا ہے اور اس نے پنجے گاڑنا بھی شروع کر دیئے ہیں ابھی اس نے وبائی شکل اختیار نہیں کی ہے لیکن ’’بندر وائرس‘‘ کے وبا بننے کا خطرہ حقیقت بھی بن سکتا ہے ہمیں اس کی دیکھ بھال کیلئے اسے روکنے کیلئے اس کا تدارک کرنے کیلئے بھی ہماری حکومت کو بڑا فیصلہ کرنا پڑے گا وگرنہ کہیں دیر نہ ہو جائے۔
اس بارے میں تو دو آراء نہیں پائی جاتی ہیں کہ حالیہ پٹرول بم گرائے جانے کے بعد جو نتائج نکلیں گے وہ عوام کیلئے کسی طوربھی قابل قبول نہیں۔ ڈالر کی قدر مسلسل بڑھ رہی ہے جو روپے کو بے قدر کر رہی ہے۔ مہنگائی کا طوفان اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ معیشت پر حملہ آور ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ بھرپور اور شدید ہے اور اس کے ہمار ی انفرادی معیشت یعنی عوام پر ناقابل بیان منفی اثرات مرتب ہونگے۔ ایک عام آدمی کی معیشت کا پہلے بھی بیڑہ غرق ہو چکا ہے۔ قدر زر میں گراوٹ اور ذرائع آمدنی میں جمود کے باعث فرد کی قوت خرید گھٹتی چلی گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ یقینا ناقابل برداشت اور جان لیوا ہے۔ اس اضافے کے دور رس اثرات تو سردست پتہ نہیں کیا ہونگے لیکن عوامی معیشت پر فوری اثرات یقینا تباہ کن ہونگے۔
دوسرابڑا فیصلہ جو حکومت نے گزشتہ سے پیوستہ دن میں کیا وہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کا تھا۔ عمران خان کی اسلام آباد پر یلغار کے اعلان کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ کسی کو جتھہ لے کر اسلام آباد آنے اور اپنا مطالبہ منوانے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی۔ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا کیونکہ عمران خان سرکاری و ریاستی معاملات میں مداخلت کرنے اور دھونس دھاندلی ود شنام طرازی کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کے لئے مشہور ہیں وہ بڑھکیں بھی لگاتے رہتے ہیں کہ شیخ رشید تو عمران خان کے اعلان کردہ حالیہ لانگ مارچ کو خونی بھی قرار دے چکے تھے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد آئیں گے اور اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کی تاریخ لئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ حکومت نے ان کے کسی بھی مطالبے کے سامنے سرنگوں نہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور فیصلے ہوا کہ انہیں اس طرح ریاست کو مفلوج ہرگز نہیں کرنے دیا جائے گا۔بطور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان کے لانگ مارچ کو فی الاصل شارٹ مارچ بنا کر دکھایا۔ بڑے بڑے جغادری بڑھک مار لیڈ اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل نہ پائے حد تو یہ ہے کہ شیخ رشید جیسے بڑھک باز لیڈر بھی اپنی حویلی سے باہر نہ نکلنے پائے۔ رانا ثناء اللہ نے اپنی حکومت کے بڑے فیصلے پر عملدرآمد کر کے ریاستی رٹ قائم کر دکھائی ۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ بارے معاملات کے حوالے سے سابقہ حکومت کی ترامیم کو یکسر ختم کرنے کے طریقہ کار اور قومی احتساب آرڈیننس میں مزید ترمیم کرنے کے بل منظور کر لئے ہیں جس کے مطابق صوبائی اور وفاقی ٹیکس معاملات کو نیب کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا ہے۔ موجودہ حکومت میں شامل کئی سیاسی رہنما، اس حوالے سے اپنے تجربات کی بنیاد پر اس بات پر متفق پائے گئے ہیں کہ نیب کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنانے کی بجائے حقیقی احتساب کا ایک ایسا ادارہ بنایا جانا چاہئے جو سیاسی اور وقتی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق احتساب کے عمل کو جاری رکھے اور اس طرح معاملات میں بہتری پیدا ہو۔اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ احتساب کو ایک سیاسی نہیں بلکہ قومی ادارہ ہونا چاہئے جس کا سربراہ کسی قسم کی سیاسی مداخلت کے بغیر احتساب کے عمل کو آئینی و قانونی انداز میں چلائے ، احتساب صرف ہونا ہی نہیں چاہئے بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔
جہاں تک اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا تعلق ہے تو سابقہ حکومت نے اس ایشو اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویز کو انتہائی غیر سنجیدگی سے لیا تھا۔ انہوں نے ایسی تجاویز کے ذریعے سستی شہرت اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان کے خیال میں تمام اوورسیز پاکستانی پی ٹی آئی کے ہی ووٹر ہیں ان کا یہ خیال ایسے ہی ہے جیسے ڈیفنس کے سارے رہائشی پی ٹی آئی کے حمایتی ہیں حالانکہ پی ٹی آئی اسی علاقے سے خواجہ سعد رفیق کے ہاتھوں ضمنی الیکشن میں شکست کھا گئی۔ پی ٹی آئی کے ’’دانشور‘‘ یہ بھی سمجھتے رہے ہیں کہ کینٹ کے عسکری ووٹر بھی انہی کے حمایتی ہیں حالانکہ گزشتہ دنوں پنجاب کے کینٹ بورڈز کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے نمائندے جیت نہیں سکے بلکہ پی ٹی آئی کا کینٹ بورڈز کے انتخابات میں صفایا ہی ہو گیا ہے۔
عمران خان کے بارے میں کئی باتیں اب کھل کر سامنے آرہی ہیں جیسا کہ 25مئی کے لانگ مارچ اور عوامی سمندر لانے کی دھمکی، نقش برآب ثابت ہوئی۔ وہ سمندر تو کیا ندی نالہ بھی نہ لا سکے اور بری طرح ناکام ہوئے۔
اتحادی حکومت بڑے فیصلے کررہی ہے جو ضروری نہیں کہ عوامی مقبولیت حاصل کر سکیں لیکن ایک بات طے ہے کہ ایسے فیصلے قومی معیشت اور سیاست کیلئے ضروری ہیں اور ان کے اثرات ضرور مرتب ہونگے، بہتری کی صورت میں، استحکام کی صورت میں، انشاء اللہ۔

مصنف کے بارے میں