جاپان میں خود کشی کے واقعات کورونا کی اموات سے بڑھ گئے

جاپان میں خود کشی کے واقعات کورونا کی اموات سے بڑھ گئے
کیپشن: جاپان میں خود کشی کے واقعات کورونا کی اموات سے بڑھ گئے
سورس: فائل فوٹو

ٹوکیو: جاپان کے شہریوں میں خود کشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ اکتوبر میں 2153 افراد نے خود کشی کی جبکہ کورونا سے مرنے والوں کی تعداد 2087 تھی۔ جاپانی حکام شہریوں کے بڑی تعداد میں خود کشی کرنے سے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔

خیال رہے کہ جاپان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں ہوتا ہے۔ وہاں کے شہریوں کو دنیا کی ہر سہولت میسر ہے۔ تعلیم، صحت اور آسودہ زندگی سمیت ہر چیز ان کی دسترس می سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے شہری اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔ 2015ء میں کئے گئے ایک سروے میں بات سامنے آئی تھی کہ جاپان میں صرف ایک سال کے دوران پچیس ہزار افراد نے اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ ان افراد میں صرف بزرگ ہی نہیں بلکہ ہر عمر کے افراد شامل تھے۔

طبی ماہرین مانتے ہیں کہ جاپانی قوم کو سب سے بڑی جس نفسیاتی بیماری کا سامنا ہے وہ شدید ذہنی دبائو اور تنہائی ہے۔ اس کے علاوہ کسی قسم کا مذہبی رجحان نہ ہونے کی وجہ سے جاپانی شہریوں کے نزدیک خود کشی کوئی جرم یا گناہ نہیں ہے، اس لئے وہ زیادہ اس طرف راغب ہیں۔ اسے وہ ''باعزت موت'' سے تشبیہ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ جاپانی معاشرے میں مادیت اتنی زیادہ ہے کہ لوگ اس کو حاصل کرنے کیلئے قرضوں کے بوجھ میں دب جاتے ہیں اور بالاخر اس سے چھٹکارا پانے کیلئے اپنی جان دے دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر کوئی خود کشی کرلے تو اس حوالے سے جاپان میں ادائیگی کیلئے نرمی برتی جاتی ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبا جو بھی جاپانی شہری خود کشی کرتا ہے اس کے ذہن میں یہ بات ضرور ہوتی ہے۔

ایک اور چونکا دینے والی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جاپان میں صرف بزرگ ہی نہیں بلکہ نوجوان بھی خود کشی کی طرف بڑی تعداد میں راغب ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ ٹیکنالوجی کا بے تحاشا استعمال ہے جو ان نوجوانوں کو تنہائی کا شکار بنا رہا ہے۔ جاپانی معاشرے کی سب سے منفی بات یہ ہے کہ ان رجحانات کو دماغی یا نفسیاتی عارضہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ جاپان میں نفسیاتی معالجین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ نفسیاتی معالجین کے پاس جانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

2018ء میں ایک رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جاپانی طلبہ میں بھی خود کشی کی شرح تیس فیصد بڑھ چکی ہے۔ 2016ء اور 2017ء کے درمیانی عرصہ میں ڈھائی سو بچوں نے خود کشی کر لی تھی۔ اس سے قبل 1986ء میں بچوں کے اندر سب سے زیادہ خود کشی کا رجحان دیکھا گیا تھا۔