اورکھیل ختم ہو گیا……؟

اورکھیل ختم ہو گیا……؟

نئے آرمی چیف کی تقرری سے ایک دن قبل عمران خان نے فرمایاکہ اہم تقرری کی سمری سے متعلق صدر سے رابطے میں ہوں اور وہ مجھ سے مشورہ کریں گے۔اورہم اس معاملے پرکھیلیں گے۔دوسرے دن جب عارف علوی سمری لے کر زمان پارک کے ”انقلاب ہاؤس“ پہنچے توان کی ٹانگوں کے ساتھ ”دانت“ بھی بج رہے تھے (اگرچہ علوی صاحب کواپنے منصب اوراس کے تقاضوں کاخیال نہیں آیاکہ وہ کیوں کرایک نااہل شخص سے یہ مشورہ کرنے گئے ہیں مگروہ صدرسے زیادہ روایتی ”دندان ساز“ہی نکلے)۔
صدرمحترم کی طرف سے جب ”کھلاڑی“کواصل صورتحال سے آگاہ کیاگیاتووہ دانت پیس کر رہ گئے جوکھیل انہوں نے کھیلنے کامنصوبہ بنایاتھا وہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا۔کرکٹ کاکھلاڑی ہونے کی وجہ سے وہ ہرکام کوکھیل سمجھ کرکرتے ہیں،چارسال حکومت میں ہوتے ہوئے عوام سے کھیلتے رہے اپوزیشن میں تھے توایمپائرسے مل کرکھیلتے رہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایمپائرسے مل کرکھیلنازیادہ پسندکرتے ہیں ایمپائرنیوٹرل ہوجائے تووہ ایمپائرسے ہی لڑپڑتے ہیں اس کے خلاف محاذکھول دیتے ہیں،جب ایمپائران کاساتھ نہ دے تو ایمپائربدلنے کی سازش کرتے ہیں اور اپنی مرضی کاایمپائرلانے کے لیے وہ تن من دھن لگادیتے ہیں۔
اسی لیے جب عارف علوی نے انہیں بتایاکہ ”نیوٹرل ایمپائر“نامزدہوگیاہے تواب کیسے کھیلیں گے؟ توخان صاحب کے اوسان خطاہوگئے۔ دیواروں سے ٹکرانے کے بجائے موصوف نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت سمجھی (ہتھیار ڈالنا خاندانی روایت جوہوئی)،ہتھیارڈالنے کے سوا ان کے پاس اورکوئی راستہ تھا بھی نہیں، انہیں احساس ہوگیاتھا کہ آج وہ مکمل ”یتیم“ہی نہیں ہوئے بلکہ اس ”فیض“سے بھی محروم ہوگئے ہیں جس کے بل بوتے پروہ گزشتہ پانچ (بلکہ دس بارہ) سال سے دندنارہے تھے۔اس سائے تلے عمران خان نے وہ وہ کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ میں یادگارکے طورپرمحفوظ رہیں گے،دھرنوں سے لے کردوسری جماعتوں کے الیکٹیبلزپرشب خون مارنے تک،ووٹ چوری سے جعلی مینڈیٹ کی سینہ زوری تک،ایک طویل داستان ہے یہ سب اس سائے کاہی تو”فیضان“تھا مگرآج ان کی حالت یہ ہوچکی تھی کہ
بے فیض رفاقت میں ثمر کس کے لئے تھا
جب دھوپ تھی قسمت میں تو شجر کس کے لئے تھا
یوں شام کی دہشت سر دشت ارادہ
رکنا تھا، تو پھر سارا سفر کس کے لئے تھا
یہی وجہ ہے کہ خان صاحب نے اس”فیض“ کاسایہ تاحیات اپنے سرپررکھنے کے لیے لاکھ جتن کیے بلکہ جان کی بازی تک لگادی مگر”فیض“کاوہ سلسلہ برقرارنہیں رکھ سکے۔یہ قدرت کاکھیل تھا یاان
کی غلطیاں تھیں مگرجوہوناتھا وہ ہوچکاتھا،زمان پارک میں عمران خان مایوسی اورناامیدی کے عالم میں گھرکی چھت کوگھوررہے تھے اورعارف علوی کی نظریں بلکہ دل ودماغ سمری پراٹکے ہوئے تھے۔
کیا ہو گیا گلشن کو ساکت ہے فضا کیسی
سب شاخ و شجر چپ ہیں ہلتا نہیں پتا بھی
لو جس سے لگائی تھی وہ آس بھی مدھم ہے
دل جس سے چراغاں تھا بجھتا ہے وہ شعلہ بھی
خان صاحب کومعلوم تھا یہ چندلائنوں کی ایک سمری ان کے حقیقی آزادی مارچ کی موت کاپروانہ تھی یہ سمری خان صاحب کے لیے ایک واضح پیغام بھی تھی کہ اب مزید آپ کے گناہوں و نااہلیوں کابوجھ ہم نہیں اٹھاسکتے اب بیساکھیوں کے بغیر چلنے کاطریقہ سیکھو،کھیلناہے توطے کردہ اصولوں کے مطابق کھیلو۔ تمھاری پارسائی کابھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔ تمھاری نااہلی کی سزاقوم بھگت چکی ہے تمھارا جھوٹ پرمبنی بیانیہ اپنی موت آپ مرچکاہے لہذایہ ملک اوراس کے ادارے مزیدتمھارے دام فریب میں نہیں آ سکتے۔ تمہاری طاقت عوام دیکھ چکے کہ تم ا پنی صوبائی حکومت سے ایک ایف آئی آرتک درج نہیں کرا سکے، جھوٹ پرکب تک عوام کوگمراہ کرتے رہوگئے پچاس لاکھ گھراورایک کروڑنوکریوں سے شروع ہونے والاسفرآخرکب اختتام کوپہنچے گا امریکی سازش اوررجیم چینج کی من گھڑت کہانیاں کب تک لوگوں کوسناؤگئے؟چورچورکاشورمچاکرکب تک اپنی چوریاں چھپاؤگے؟دوسرں کوعدالتوں اورمقدمات سامنانہ کرنے کاطعنہ دینے والا آخر کب تک عدالتوں سے بھاگے گا؟ کب تک عدلیہ کے فیصلوں سے روگردانی کرتے رہوگے؟دوسروں کے گلوں پرپھندہ فٹ کرنے والاایک دن خود اس پھندے میں فٹ ہوجاتاہے ہماری سیاسی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
یوں خان صاحب کوسمجھ آجاناچاہیے کہ اب مزیدجھوٹ کاسفرجاری نہیں رکھاجاسکتااس لیے جب وہ بھرپورتیاری، چار صوبائی حکومتوں کے سرکاری وسائل، سات ماہ کی محنت،سازشی بیانیوں کی بھرپور تشہیر، سوشل اورالیکٹرانک میڈیاکی بھرپور کوریج،وزیرآباد حملے کی مظلومیت کی داستان،زخمی ٹانگ اوراس ٹانگ سے اترنے والے پلسترکے ساتھ راولپنڈی میں داخل ہوئے تووہ سوائے ایک روایتی جلسی کے کسی کوحیران کرنے کاساماں نہیں کرسکے،اسلام آباد کے بجائے راولپنڈی میں دھرنے کااعلان کرکے انہوں نے جو تھرتھلی مچانے کی کوشش کی تھی وہ سب کچھ چند سطروں پر مشتمل ایک سمری کی مار نکلی۔ شاید خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پنڈی سے ایک طوفان اٹھائیں گے اوراسلام آبادکوبہاکرلے جائیں گے مگرپنڈی والوں نے بھی بہت ہی باعزت طریقے سے انہیں بے عزت کرکے واپس بھیج دیا۔
امسال 27مارچ سے شروع ہونے والا جھوٹ کاسفر26نومبرکواختتام کوپہنچامولانا فضل الرحمان نے بالکل درست نشاندہی کی کہ ملک میں سازش کا کوئی نام ہے تو وہ عمران خان ہے جس نے دفاعی قوت کو بھی تقسیم کرنے کی سازش کی۔ آرمی چیف جنرل قمرجاویدباجوہ نے بھی یوم شہداء کے موقع پرخطاب کرتے ہوئے کہاکہ جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی، سینئر ملٹری لیڈر شپ کو مختلف القابات سے نوازا گیا، صبر کی حد ہوتی ہے، فوج نے درگزر سے کام لیا، اب اِس جھوٹے بیانیے سے راہِ فرار اختیار کی جا رہی ہے، کوئی سوچ سکتا ہے کہ غیر ملکی سازش ہو اور فوج ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے؟یہ ناممکن ہے،گناہِ کبیرہ ہے۔
حکومت ہمت کرے اورعمران خان کامحاسبہ کرے کہ اس نے کن طاقتوں کی ایما پر ملک کے خلاف یہ جھوٹا بیانیہ گھڑا؟پہلے ساڑھے تین سال ملک کانقصان کیااوراس کے بعدجوکسررہ گئی تھی وہ ان سات ماہ میں پوری کرکے چھوڑی،یہ کھوج بھی لگانا ضروری ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنانے کے پیچھے کون سی سازش کارفرما تھی؟ یہ بھی معلوم کرناہے کہ داستان گوئی اور حقائق میں بڑا فرق ہے.....گفتگو کے بھی کچھ آداب ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک…… سرخ لکیر…… طے ہے…… لہجہ توازن کھودے تو"بیانیے" مبہم ہی نہیں ہوجاتے بلکہ وہ بیانیے سازش کاروپ بھی دھارلیتے ہیں۔ آخراس سب کے پیچھے کس کامال استعمال ہوا؟کون سازہن کارفرماتھا؟
خان صاحب کے پاس جب سارے پتے ختم ہوگئے توانہوں نے صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کاڈھونگ رچایا؟ابھی تک توان کے ممبران کا قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کاطے نہیں ہو سکا۔ عمران خان کوبڑاسیاستدان کہنے والے بتائیں گے کہ اس نے ان سات ماہ میں کیاحاصل کیا حتیٰ کہ وہ اپنی مرضی کاآرمی چیف نہیں لگاسکے۔الیکشن کمشنرکونہ ہٹاسکے۔حکومت کومتزلزل نہ کر سکے۔اسحق ڈارکی واپسی کونہ روک سکے، نوازشریف واپس آنے کوتیاربیٹھے ہیں وہاں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکے نیب کے قوانین میں ترامیم کونہ روک سکے۔ حتیٰ کہ 25مئی کادھرنالے کر اسلام آباد میں داخل ہونے والادوسری مرتبہ اسلام آبادمیں داخل نہیں ہو سکا۔ وزیرآبادحملے کی ایف آئی آردرج نہیں کرا سکا وہ صرف کھیلتا رہا اور یہ کھیل بالآخرختم ہوگیا۔۔؟
خان صاحب بھی جانتے ہیں کہ آگے کاسفرکٹھن ہے یتیمی میں اپنے بھی ساتھ چھوڑجاتے ہیں اس لیے انہیں بہت پھونک پھونک کرقدم رکھناہوں گے۔خان صاحب تازہ تازہ یتیم ہوئے ہیں اوروہ جن کے سہارے پرچل رہے تھے وہ بھی ساتھ چھوڑگئے ہیں اس لیے اب پتہ لگے گا کہ وہ سیاسی میدان میں کیسے مقابلہ کرتے ہیں۔
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دکھ عابی
سنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چبھتے