چور چور چور کا شور

چور چور چور کا شور

لندن میں تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس بار مریم اورنگزیب اس کا نشانہ بنی لیکن انھوں نے جس تحمل سے کام لیا وہ قابل تحسین ہے۔ برطانیہ میں یقینا تحریر و تقریر کی آزادی ہے لیکن کیا ایک نہتی خاتون کو درجنوں افراد اپنے گھیرے میں لے کر ہوٹنگ کریں اور اس پر فقرے کس کر اسے ہراساں کریں یہ بات اور یہ طرز عمل تو کسی قانون کے تحت آزادی رائے میں نہیں آتا بلکہ یہ تو شخصی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور ہمیں حیرت تو لندن پولیس پر ہے کہ اس نے ان غنڈوں کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت ہمیں نواز لیگ پر ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کہ برطانوی قانون کے تحت بھی کسی طور آزادی اظہار میں نہیں آتے ان کے خلاف پولیس میں شکایت کیوں نہیں کرتے۔اس لئے کہ یہ سیدھی سیدھی غنڈا گردی ہے۔ایک عرصہ ہو گیا ہے سیاستدانوں کے متعلق اس قسم کے الفاظ سنتے لیکن اب اپنی بات میں مزید وزن پیدا کرنے کے لئے بے غیرت، بے شرم،  غلیظ اور اس جیسے دیگر الفاظ بھی بولے جانے لگے ہیں۔اس قسم کے جتنے لوگ ہیں کہ جنھیں ملک اور قوم کا غم چین نہیں لینے دیتا اور وہ دن رات چوبیس گھنٹے بس اسی غم میں مرے جا رہے ہیں کہ سیاستدانوں نے اس ملک کو کرپشن کر کے لوٹ لیا ان کا اپنا کرداریہ ہے کہ توشہ خانہ سے گھڑیوں تک پر ہاتھ صاف کیا اور اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔آپ یو ٹیوب کھول کر بیٹھ جائیں اور ان لوگوں کے بھاشن سرچ کرتے چلے جائیں۔یہ لوگ ہمیشہ صرف سیاستدانوں پر ہی باؤں باؤں کرتے نظر آئیں گے لیکن مجال ہے کہ سیاستدانوں سے ہٹ کر کسی اورکی کرپشن پر بھول کر بھی ایک لفظ کہنے کی جرأت کر یں۔ایسا کیوں ہے اس لئے کہ لفاظی میں ماہر ٹھگوں کا یہ ٹولہ اتنا بزدل ہے کہ ان میں اتنی جرأت ہی نہیں کہ کسی اور کے متعلق اشارے کی حد تک بھی بات کر سکے۔احتساب کرنے والے ادارے کے چیئر مین کی ایک شرمناک وڈیو منظر عام پر آئی اوراس وڈیو کی کی کوالٹی ایسی تھی کہ اس کے اصلی اور نقلی ہونے پر بھی کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا لیکن حیرت اس وقت ہوئی کہ جب اس شرم ناک وڈیو میں جو کچھ بھی ہو رہا تھا اسے ذاتی معاملہ قرار دے کر مٹی پاؤ فار مولہ پر عمل کیا گیا اور پھر ایک ایسی وڈیو کہ اگر یہ کسی سیاستدان کی ہوتی تو اس کا اس ملک میں جینا مشکل ہو جانا تھا لیکن چونکہ یہ کسی سیاستدان کی وڈیو نہیں تھی اس لئے چند دن بعد ہی اس وڈیو کو حرف غلط کی طرح فرا موش کر دیا گیا۔
لندن کی عدالت سے ایک نہیں دو فیصلے شریف خاندان کے حق میں آ چکے ہیں لیکن دنیا بھر کے عدل و انصاف کے اصولوں کے برخلاف ضد یہ ہے کہ جنھیں ہم کہتے ہیں کہ یہ چور ہیں انھیں نہ صرف یہ کہ چور مانا جائے بلکہ یہ بات صدق دل سے تسلیم بھی کی جائے۔دور قدیم سے لے کر دور جدید تک اور معلوم انسانی تاریخ سے لے کر لمحہ موجود تک عدل و انصاف کے اصول یہی رہے ہیں کہ جسے عدالت مجرم قرار دے اسے ہی مجرم تصور کیا جائے گا اس کے علاوہ کسی کے ساتھ مجرم کے طور پر سلوک نہیں کیا جائے گااور تاریخ گواہ ہے کہ بعض اوقات تو عدالت کسی کو مجرم مان لیتی ہے لیکن خلق خدا اس کے باوجود بھی اسے مجرم ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔سقراط،منصور اور ذوالفقار علی بھٹو اسکی واضح مثالیں ہیں۔ان حقائق کے باوجود بھی اصرار یہی ہے کہ نہیں ہم اصولوں پر چلیں گے لیکن اصول وہ جو ہم بنائیں گے اور سب کو انھیں ماننا بھی پڑے گا۔ہمیں سبق یہ پڑھایا جا رہا ہے کہ چور ڈاکو او رلٹیرے ہونے کے لئے ایک یہی وجہ کافی ہے کہ سیاستدان امیر ہیں اور ان کے پاس اربوں کھربوں ہیں۔اب اگر کسی کے پاس اربوں کھربوں ہیں تو سیاست میں یا یہ کہہ لیں کہ حکومت میں آنے سے پہلے شریف خاندان کیا کنگلال پورا کا رہائشی تھا یا زرداری کیا حقیقت میں فٹ پاتھیا تھے۔ان خاندانوں کا شمار حکومت میں آنے سے پہلے بھی امراء میں ہوتا تھا اور اب بھی یہ امیر ہیں۔ دنیا بھر میں سیاستدان امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی لیکن کبھی کسی کی امارت اور غربت کو 
دیکھتے ہوئے اس کے چو ر ڈاکو ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔سابق امریکن صدر ٹرمپ ڈالروں میں ارب پتی ہیں اسی طرح جارج بش سمیت امریکہ کے سابق صدور میں سے کئی ایک ارب پتی ہیں بلکہ انھیں بین الاقوامی آئل مافیا کے کرتا دھرتا بھی کہا جاتا ہے لیکن ان پر کسی نے کرپٹ ہونے کا الزام نہیں لگایا اور شاید ہی دنیا کا کوئی اور ملک ایسا ہو کہ جس نے خود اپنے ہی خلاف پروپیگنڈا کر کے پوری دنیا میں اپنے آپ کو چور ثابت کیا ہو لیکن یہ کارنامہ بھی ہم نے ہی انجام دیا ہے اور بیرون ملک ہر ایئر پورٹ پر گرین پاسپورٹ کو اس کے نقد نتائج بھی بھگتنا پڑتے ہیں۔ہم نے برسوں 
کی محنت کے بعد ایک دوسرے کو کہ جس میں سیاست کے تمام بڑے کھلاڑی شامل ہیں انھیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر چور بنا کر اپنا اپنا رانجھا تو راضی کر لیا ہے لیکن ملک و قوم کو ایک جگہ جامد حالت سے متحرک حالت میں نہیں آنے دیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری قوم بھی ایسی ہے کہ اسے جو چورن دیا جاتا ہے وہ اسے راضی خوشی مہنگے داموں خرید لیتی ہے۔
 کرپشن کی کوئی ذی شعور بندہ حمایت نہیں کرے گا لیکن اب اس کا کیا کریں کہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو دو مرتبہ ہی سزا ہوئی ہے ایک مرتبہ جسٹس قیوم کی آڈیو ٹیپ منظر عام پر آ گئی اور جس جج نے نواز شریف کو سزا دی تھی اس کی آڈیو ہی نہیں وڈیو بھی سامنے آ چکی ہے تو اگر یہ واقعی کرپٹ ہیں تو یقینا ان کے خلاف ٹھوس دستاویزی ثبوت ہوں گے۔ تحریک انصاف کے دور میں تو ان کے پاس ایک سنہری موقع تھا کہ وہ برطانوی حکومت کو میاں نواز شریف اور اسحق ڈار کے خلاف ایسے ٹھوس ثبوت دیتے کہ برطانوی عدالتوں کے پاس کوئی گنجائش ہی نہ رہتی۔اس حوالے سے ریاستی اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے اور گولڈ اسمتھ خاندان جو محترم عمران خان کا سابق سسرالی ہے اور جن کے ساتھ خان صاحب کے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔اس خاندان کا بھی برطانیہ میں اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے ان سے بھی کہتے اور یقینا یہ سب کیا بھی ہو گا لیکن نتیجہ کیا نکلا وہی ٹائیں ٹائیں فش۔ اصل بات یہی ہے کہ جن کاغذ کے پلندوں کا ہم ٹھوس ثبوت کہہ کر ڈھنڈورا پیٹتے ہیں پاکستان سے باہر انھیں کوئی ٹھوس ثبوت ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا بلکہ بیرون ملک کی کیا بات کریں یہ ٹھوس ثبوت ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی سطح تک پہنچتے پہنچتے اپنی حقیقت کھو دیتے ہیں۔اس لئے گذارش ہے کہ ستر سال میں چور ڈاکو لٹیرے اس طرح کی سیاست بہت ہو گئی جو چور ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو کسی سے رعایت نہ کرتے انھیں پکڑتے سزا دیتے اور عبرت کی مثال بناتے لیکن اب انتقامی سیاست سے گریز ہی ملک اور قوم اور خود سیاستدانوں کے مفاد میں ہے اور یہی سب سے پہتر سیاست اور سب سے بہتر راستہ ہے۔

مصنف کے بارے میں