ادب کا اعلیٰ مقام آیا

ادب کا اعلیٰ مقام آیا

زہے مقدر حضور حق سے سلام آیا، پیام آیا
جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا
ارادہ تو نہیں تھا سابقہ سلیکٹڈ وزیراعظم کے متعلق اپنا وقت اور قلم و قرطاس ضائع کرتا مگر اس کی حرکات ایسی ہیں کہ کوئی حق گو خاموش نہیں رہ سکتا۔ مسجد نبویؐ میں ہونے والے یوتھیاپے نے دل کو اُداس کر دیا۔اللہ کریم قرآن عظیم میں فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کریمﷺ کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو‘‘ (مفہوم)۔ عثمانی دور میں مسجد نبویؐ کی تعمیر، تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ ذرا تفصیل پڑھئے اور اپنے دلوں کو عشق نبیؐ سے منور کریں۔
ترکوں کے دور حکومت میں سلطان عبد الحمید نے جب مسجد نبویؐ کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ہیں۔ اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ہر علم کے مانے ہوئے لوگوں نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہر بسایا گیا، جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا۔ اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ہوا، جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں ملنا محال ہے۔خلیفہ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا، شہر میں آیا اور ہر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذہین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھائے کہ اسے یکتا و بے مثال کر دے۔ اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بنائے گی۔ دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رہا۔ 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی، جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتائے روزگار تھے، بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا۔ یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے۔
اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں۔ جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں۔ تختے حاصل کیے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا۔ یہ سارا سامان نبی کریمؐ کے مقدس شہر مدینہ منورہ پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیے مدینہ سے دور ایک بستی بسائی گئی تاکہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ہو۔ وہاں سے پتھروں کو تراش کر اور لکڑیوں کو تیار کر کے مسجد نبویؐ لایا جاتا۔ لیکن نبی اکرمؐ کے ادب کی وجہ سے اگر کسی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا۔ ماہرین کو حکم تھا کہ ہر شخص کام کے دوران با وضو رہے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے۔ حجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جائے۔ ستون لگائے گئے کہ ریاض الجنۃ اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے۔ یہ کام پندرہ سال تک چلتا رہا اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ ایسی محبت اور ایسی عقیدت سے کوئی تعمیر نہ کبھی پہلے ہوئی اور نہ کبھی بعد میں ہو سکتی ہے۔ 
العربیہ کے مطابق نبی اکرمؐ اور صحابہؓ نے مسجد نبویؐ کی بنیاد 1050 مربع میٹر جگہ سے رکھی۔ مسجد کی عمارت کچی اینٹوں، گارے، کھجور کے تنوں اور پتوں سے بنائی گئی۔ ایک ہزار پچاس مربع میٹر سے شروع ہونے والی مسجد نبویؐ آج پانچ لاکھ مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ مسجد نبویؐ کی پہلی توسیع خود نبی اکرمؐ کے زمانے میں کی گئی۔ 1050 مربع میٹر مسجد میں مزید 1425 مربع میٹر کا اضافہ کیا گیا، جس کے بعد مسجد کی جگہ 2500 مربع میٹر ہو گئی۔ مسجد نبویؐ کے قیام کے بعد آج تک اس کی توسیع میں 300 گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ 17ھ کو دوسرے خلیفہ راشد عمر بن الخطابؓ نے مسجد نبویؐ میں 1100 مربع میٹر کی مزید توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد کا کل رقبہ 3600 
مربع میٹر تک پھیل گیا۔ 29ھ اور 30ھ کے دوران تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفانؓ نے مسجد نبویؐ میں 496 مربع میٹر کی توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد نبویؐ 4096 مربع میٹر ہو گئی۔ اموی دور حکومت میں خلیفہ ولید بن عبدالملک نے 88ھ تا 91ھ میں 2369 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبویؐ میں شامل کرائی جس کے بعد مسجد کا احاطہ 6465 مربع میٹر ہو گیا۔ 161ھ میں عباسی خلیفہ مہدی نے 2450 مربع میٹر کا مزید رقبہ مسجد نبویؐ کا حصہ بنایا جس کے بعد مسجد 8 ہزار 915 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ 888ھ کو سلطان اشرف قاتیبائی نے 120 مربع میٹر کی جگہ مسجد نبویؐ میں شامل کی اور مسجد 9053 مربع میٹر پر پھیل گئی۔ عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید نے 1293 میٹر مسجد نبویؐ میں توسیع کرائی، جس کے بعد مسجد کا رقبہ 10328 مربع میٹر تک جا پہنچا۔ یہ توسیع 1265ھ میں کرائی گئی تھی۔ مذکورہ بالا تفصیلات اور عقیدت و محبت کی جو داستان بیان ہوئی، وہ اسی تعمیر سے متعلق ہے۔
اب تک 14 مرتبہ سے زائد مسجد نبویؐ میں توسیع کی گئی ، ادب کا مقام بڑھتا چلا گیا جو اب تک جاری ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے ’’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو(مفہوم)‘‘۔اگلے دن مسجد نبویؐ کے احاطہ میں ہونے والی بے ادبی، بے لحاظی دیکھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ جو لوگ سرکار مدینہﷺ کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل کر چکے ہیں انہیں اندازہ ہو گا کہ ادب کا واں کیا مقام ہے۔ میرے آقا کریمﷺ جہاں آرام فرما ہیں، ہماری التجائیں سنتے ہیں۔ ’’اے اللہ کے رسول! ہماری حالت پر توجہ فرمائیے، اے اللہ کے حبیب! ہماری عرض سماعت فرمائیے، بے شک میں غموں (پریشانیوں کے) سمندر میں غرق ہوں، میرا ہاتھ پکڑیں اور ہماری مشکلات کو (باذن خداوندی) آسان فرما دیں‘‘۔
بسنت کی بسنت میاں صلی کی حویلی میں پایا جانے والا شخص اپنے فالوورز کو کیا تعلیم دے رہا ہے؟ میں اللہ کے بندوں، خاص بندوں، اولیا اللہ سے فیض حاصل کرنا پسند کرتا ہوں لیکن اقتدار کی خاطر قبروں پر سجدے کرنے والا میرے آقا کریمﷺ کے مسکن مبارک کا احترام بھول گیا۔ اس کی ان حرکات سے تو مولانا ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی پیش گوئی اور حکیم سعید کا کہا ہوا سچ ثابت ہو رہا ہے۔عمران خان نے کہا تھا اگر مجھے نکالا گیا تو میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ اقتدار کی خاطر ملک کے لیے خطرناک۔ مگر صد افسوس کہ اس خطرناکی کا فتنہ، بدتمیزی، بدتہذیبی، بے ادبی میرے آقا کریمﷺ کے مسکن تک پہنچا دی گئی۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اب کبھی سابقہ حکمرانوں پر نہیں لکھوں گا مگر ان کی باتوں نے دماغ گھما دیا کہ جیسے اللہ کا پیغام انبیاء کرام لوگوں تک پہنچاتے تھے آپ میرا پیغام لوگوں تک پہنچائیں۔ (بقول مریم نواز) دراصل جب انسان کا زوال آتا ہے، بُرا وقت ہے تو ایک وقت میں ہر طرف سے ایسا ہی چکر چلتا ہے۔ سمجھدار لوگ کہتے ہیں جب آندھی طوفان آئے تو بیٹھ جانا چاہئے۔ مگر موصوف تو ٹرمپ کے ایجنڈے، مودی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ آئین، قانون، معاشرت کو برباد کرنے کی کوشش کے پیچھے جو خناس تھا وہ دراصل سزا تھی بے ادبی کی جس کی اخیر مسجد نبویؐ میں ہونے والی بدتمیزی پر منتج ہوئی۔ یہ ادب کے مقام پر بے ادبی اور استغفار کے مقام پر شکر ادا کرتے ہیں میاں برادران اور زرداری سے معاملہ کرتے رہنا، کوئی بتائے انہیں کہ
جھکائو نظریں ادب کا اعلیٰ مقام آیا

مصنف کے بارے میں