تین سالہ بزدار حکومت

Mohsin Goraya, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

تحریک انصاف کو پنجاب حکومت اور سردار عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ کی تیسری سالگرہ مبارک، مبارکباد اس پر بھی کہ پنجاب میں ترقی،خوشحالی اور گورننس کی بہتری اب نظرآنا شروع ہو گئی ہے،گزرے تین سال میں اگر پنجاب حکومت کی کار کردگی کاجائزہ لیا جائے تو ابتدائی ایا م میں اتار چڑھاؤ، اونچ نیچ،سرد و گرم دکھائی پڑتے ہیں،بعض اوقات تو یقین و بے یقینی کی کیفیت بھی عروج پر دکھائی دیتی رہی مگر تیسرے سال میں پنجاب حکومت پورے قد سے اپنے پاؤں پر کھڑی دکھائی دے رہی ہے۔ابتدائی دو سال میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا مستقبل بھی بے یقینی کی دھند میں لپٹا دکھائی دیتا تھا،اس بے یقینی میں بے چینی کا عنصر بھی نمایاں تھا مگر اکیلے عثمان بزدار اس نشیب و فراز میں ڈٹ کر کھڑے رہے،اپوزیشن نے بھی اپنی توپوں کا رخ پنجاب کی طرف کئے رکھا اور اپنے بھی بیگانے، یہی تاثر دینے کی بھر پور کوشش کی گئی کہ عثمان بزدارکمزور اورسیاسی داؤپیچ سے نا بلد ہیں سیاسی خانوادوں سے ان کے تعلقات بھی ایسے نہیں کہ اپنی وزارت اعلیٰ بچاسکیں اس لئے اپوزیشن کی پہلی کوشش ان کے خلاف عدم اعتماد لانا تھی،زرداری اس حوالے سے خاصے پر امیدتھے اسی بنیاد پر انہوں نے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم سے راستے الگ کئے،اوراسی مقصد کیلئے پنجاب میں حکو مت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کوساتھ ملا نے کی بھی بے سود کوشش کی،مگر نیک نیتی اور سلو اینڈ سٹیڈ ی ونز دی ریس کی پالیسی نے بزدارحکومت کو ٹھوس بنیاد فراہم کی۔
پنجاب کے 70 فیصد خاندانوں کو ہیلتھ انشوزنس کارڈ کی فراہمی،6 نئی یونیورسٹیاں قائم 15 تکمیل کے مراحل میں،ٹیکس، ریونیو، تعلیم،انڈسٹریز، انفراسٹرکچر، سوشل سیکٹر سمیت ہر شعبہ میں بہتری،106 ارب کے کوووڈ ریلیف فنڈ اور مؤثر سمارٹ لاک ڈاؤن پالیسی، صرف تخت لاہور کو نوازنے کے بجائے تمام اضلاع کے لیے 360 ارب کا ترقیاتی بجٹ،1965ء کے بعد گریٹر تھل کینال کی صورت میں 20 ارب کی لاگت سے پہلا بڑا آبپاشی کا منصوبہ،11 ہزار سکول سولر انرجی پر منتقل اور تقریباً 18 لاکھ طلباء کو بجلی کی فراہمی،ایک روپیہ خرچ کئے بغیر تمام سرکاری جامعات کو رواں سال سولر انرجی پر منتقل کرنے کامنصوبہ،نئی نوکریوں اور صنعتی ترقی کے لیے 8 نئے سپیشل اکنامک زونز اور چار انڈسٹریل زونزکی اپ گریڈیشن، محکمہ مال کی طرف سے قبضہ گروپوں سے 462 ارب مالیت کی 180409 ایکڑ اراضی کی بازیابی، صرف کچھ کام ہیں جو وزیر اعلیٰ بزدار کے کام، کام اور کام نظریہ اور ان کی پر فارمنس کی کھلی تائید ہیں۔
 تین سالہ حکومتی کار کردگی پراگر سرسری نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے عثمان بزدار کی اصل اپوزیشن مسلم لیگ ن یا پی ڈی ایم نہیں بلکہ سابق حکومت کی چہیتی اور منہ چڑھی بلکہ ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھانے والی اورسرکارسے تنخواہ لیکر سابق حکمرانوں کا پانی بھرنے والی بیو رو کریسی تھی،اگر چہ افسر شاہی میں کچھ ایسے لوگ ان کو دستیاب ہو گئے تھے جو ملکی اورعوامی مفاد میں استقلال اوراستقامت سے عثمان بزدارکا ساتھ دیتے رہے،جس کے نتیجے میں مخالفین کی ہر چال ناکام ہوئی اورعثمان بزدار مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے،بیو روکریسی کی جانب سے عدم تعاون کی یہ حالت تھی کہ تین سال کے عرصہ میں پنجاب میں بار بار چیف سیکرٹری اور آئی جی بدلنے پڑے،اعلیٰ بیوروکریسی میں آئے روزاکھاڑ پچھاڑ کے باعث امور سرکار ٹھپ ہو کر رہ چکے تھے مگر اب بیوروکریسی ان کے کنٹرول میں بلکہ ساتھ ہے، ایوان وزیر اعلیٰ اور ایوان چیف سیکرٹری اب شیرو شکر ہیں،کریڈٹ وزیر اعلیٰ کے نئے پرنسپل سیکرٹری عامر جان کو جاتا ہے مگر وژن وزیر اعلیٰ بزدار کا ہی ہے۔ 
 بعض لوگوں کا گمان تھا کہ آئے روزانتظامی ٹیم کی تبدیلی کے بعدعثمان بزدار بس چندروز کے مہمان ہیں،وزیراعظم بھی اس روز کی اٹھا پٹخ سے تنگ آکر ایک روز کوئی بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں، مگراس تمام عرصہ میں عثمان بزدار کو وزیراعظم عمران خان کا مکمل اعتماد حاصل رہا،سازشوں کے اس تانے بانے میں عثمان بزداراپناسوت کاتتے رہے اور آخر کوکامیاب ٹھہرے،گزرے تین سال میں پنجاب میں ادارہ جاتی ترقی کیساتھ شعبہ جاتی ترقی اورعوامی خوشحالی کے منصوبوں پر تیز رفتاری سے نہ سہی مگر کام مسلسل جاری رہا جس کے ثمرات عام کسان،غریب شہری اور بیروزگار نوجوان تک منتقل ہونا شروع ہو گئے ہیں،صنعت کاپہیہ پوری رفتارسے تو نہیں مگرچل پڑا ہے،مزدور کو روزگار ملنے لگا،اہم ترین گنے اور گندم کے کسان کو معقول اور بروقت ادائیگی یقینی بنائی گئی،اس سے بھی اہم ٹیکسٹائل سیکٹر میں انقلاب ہے،بند ٹیکسٹائل ملز کے ساتھ پاور لومز اورکھڈیاں بھی چل پڑی ہیں جن کے ساتھ لاکھوں خاندانوں کی روزی روٹی وابستہ تھی۔
اگر چہ نظام حکومت میں وہ تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جو تحریک انصاف کے منشور کا اہم جزو تھی،مگر ریونیو اور شعبہ تعلیم میں اہم تبدیلیاں ہوئیں،محصولات میں اضافہ کی واحدوجہ اوپری سطح پر کرپشن کاخاتمہ ہے جس کی وجہ سے صوبہ کی آمدن میں قابل قدراضافہ ہوا،یکساں نظام تعلیم گو کہ وزیراعظم عمران خان کا وژن تھا مگراس پر سب سے پہلے پنجاب نے عمل کیا،اہم ترین اقدام کووڈ 19کیخلاف پنجاب حکومت کی کامیابی ہے، اگر چہ صوبہ میں صحت کے نظام میں گراں قدرصحت مند تبدیلیاں کیں جن میں صحت کارڈکا اجراء بھی شامل ہے مگر کورونا کے پھیلاؤ کو روکنا،ویکسین زیادہ سے زیادہ شہریوں کیلئے ممکن بنانا،اور متاثرین کے علاج کیلئے مراکز کا قیام عثمان بزدار کاایسا کارنامہ ہے جس کی دوسرے صوبوں کو تقلید کرنا ہو گی،یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں کورونا کی تباہ کاری خاصی کم ہے اور معاملات پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہیں،البتہ لاء اینڈآرڈر کے حوالے سے ابھی بہت سے اہم اقدام کرنے کی ضرورت ہے،جب تک عوام کو انصاف نہ ملے اورگھر، بازار، ملازمت کی جگہ اس کو جان مال آبرو کا تحفظ فراہم نہ کیا جائے تو سمجھو کچھ بھی نہیں ہوا،اور یہ کام پولیس گردی اورتھانہ کلچر کو تبدیل کئے بغیر ممکن نہیں،اور بدقسمتی سے پنجاب حکومت اس حوالے سے کوئی قابل ذکر اقدام نہ کرسکی۔
 عثمان بزدار کے تین سالہ دورکا اگر ماضی کی حکومتوں سے موازنہ کیا جائے تو متعدد شعبوں میں عثمان بزدارکی کارکردگی بہتر اور نمایاں دکھائی دیتی ہے،خاص طور پر شہریوں کو روزگار فراہم کرنے کے حوالے سے اور جن کے پاس پہلے سے روزگار ہے مگراستحصالی طبقہ ان کا خون چوس رہا تھا ان کی گردنیں استحصالیوں سے چھڑانے کیلئے عثمان بزدار حکومت کی کار کردگی نمایاں بلکہ امتیازی ہے،کاشتکاروں کو مڈل مین اور آڑھتی سے نجات دلائی،نوجوانوں کو روزگار کیلئے بینک سے قرضہ لینے کیلئے ایجنٹوں کا کردار ختم کیا،ہسپتالوں کا نظام درست کیا اگر چہ ابھی اصلاح کی بہت گنجائش ہے،زراعت، صنعت،تجارت کے شعبوں کو ترقی دی ان حالات کو دیکھتے ہوئے عثمان بزدار حکومت کو ناکام کہنے پر دل و دماغ میں یکسوئی نہیں ہو پاتی،اگر باقی ماندہ دوسال ان کو اطمینان سے حکومت کرنے دی گئی تو کوئی وجہ نہیں پنجاب ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں باقی صوبوں سے بہت آگے ہو گا۔