طالبان کی افغان خاندان پر امریکی ڈرون حملے کی مذمت 

طالبان کی افغان خاندان پر امریکی ڈرون حملے کی مذمت 
سورس: فائل فوٹو

کابل : طالبان نے امریکی ڈرون حملے میں 10 شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے امریکی کارروائی کو قابل مذمت قرار دیا۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد  نے چین کے سرکاری ٹی وی سی جی ٹی این سے  گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی ڈرون حملے میں شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں ۔

 انہوں نے حملے کا حکم دینے سے قبل طالبان کو مطلع نہ کرنے پر امریکا کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا۔

واضح رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت میں داعش کو نشانہ بنانے کے لیے امریکا کی جانب سے کیے گئے ڈرون حملے کے نتیجے میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 10 افراد جاں بحق ہو گئے۔

الجزیرہ  ٹی وی کے مطابق ایمل احمدی اور نجراب افغانستان سے روانگی کے لیے اپنا تمام سامان باندھ چکے تھے اور کابل ایئرپورٹ سے امریکا روانگی کے حوالے سے حتمی پیغام کے منتظر تھے۔

تاہم امریکا کی جانب سے روانگی کے پروانے کے بجائے ان افراد پر اتوار کی دوپہر ڈرون حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 10 افراد مارے گئے۔

امریکا کا کہنا تھا کہ یہ حملہ داعش کے دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا لیکن امریکی دعوے کے برعکس اس میں ایک ہی خاندان کے 2 سال سے 49 سال تک کی عمر کے 10 افراد لقمہ اجل بن گئے۔

اس حملے میں مرنے والوں میں ایمل احمدی کے بھائی، بھتیجے اور بھانجے بھی شامل ہیں اور وہ ابھی تک غیریقینی کے عالم میں ہیں کہ کس طرح چند لمحوں میں ان کا پورا خاندان اجڑ گیا۔

کئی گھنٹے تک وہ افغان اور بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹس کو دیکھتے رہے جس میں ان حملوں میں مرنے والوں کو داعش کے دہشت گرد قرار دیا گیا لیکن حقیقت آشکار ہونے پر ان کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔

انہوں نے حملے میں جاں بحق دو سالہ ملائکہ سمیت دیگر بچوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ معصوم اور بے یارو مددگار بچے تھے، اگر میں بھی گھر کا ضروری سامان خریدنے کے لیے باہر نہ گیا ہوتا تو ان کے ساتھ اس ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا ہوتا۔

ایمل احمدی نے کہا کہ ان کے 40 سالہ بھائی اور انجینئر زمارائی ابھی اپنے کام سے گھر لوٹے تھے کیونکہ پورا خاندان امریکا جانے والا تھا، اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ گاڑی کو دو منزلہ گھر کے اندر پارک کر دے کیونکہ وہ امریکا جانے سے پہلے اپنے بیٹے کو ڈرائیونگ سکھانا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات سنتے ہی سارے بچے گاڑی میں گھس کر بیٹھ گئے تاکہ گلی سے گھر کے گارڈن تک کی سیر کر سکیں اور جیسے ہی گاڑی گھر میں آ کر رکی تو انہیں راکٹ سے نشانہ بنا دیا گیا۔