جذ بے ریٹائر نہیں ہوتے

 جذ بے ریٹائر نہیں ہوتے

آج کل کے مصنوعی حسن کے زمانے میں کا سمٹیکس کی صنعت بہت ترقی کر رہی ہے ۔اسی پس منظر میں Anti Aging یا بڑھتی عمر کے اثرات روکنے کے نام پر بیوٹی کمپنیاں اربوں روپے کے صارفین کی جیب سے نکال لیتی ہیں اور پتہ بھی نہیں چلنے دیتیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اصل Anti Aging فارمولا آپ کے پرانے دوست ہیں جو آپ کو بوڑھا ہونے سے روکتے ہیں ان کی محفل میں آپ خود کو جوان محسوس کرتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ پرانے دوستوں کے ساتھ تمیز سے بات کرنا بہت بڑی بد تمیزی ہے۔ 
اس پیش لفظ کا مرکز و محور ہمارے بہت ہی پرانے دوست اور میرے بحرین پولیس کے 37 سال پرانے Batch mate فاروق خان ہیں جو سالہا سال کی غیرحاضری کے بعد ایک دن اچانک دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں ان کے دوسرے جنم کی انٹری بڑی دلچسپ ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی عربی لباس میں ملبوس تصویر کو میں پہچاننے سے قاصر رہا۔ جب بمشکل تمام میں نے انہیں شناخت کر لیا تو احساس ہوا کہ فاروق اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا اور ایک دفع پھر مجھے چکر دے گیا اپنی عربی تصویر کے ذریعے۔ لیکن بہت اچھا لگا۔ 
اس عہد میں کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے
جب ہم نئے نئے پولیس میں بھرتی ہو کر ٹریننگ سنٹر گئے تو وہاں سے فاروق خان کے ساتھ ہمارا سفر شروع ہوتا ہے۔ ٹریننگ سنٹروں میں باقاعدہ تعارف نہیں ہوتے بس ہر وقت دیکھ دیکھ کر لوگ واقف بن جاتے ہیں فاروق ، کو میں نے پہلی بار سفید بنیان اور سفید نیکر میں پی ٹی شوز پہنے دیکھا 
یوں سمجھیں کہ علی الصبح ہم بھاگنے کے لیے ہی اکٹھے ہوتے تھے۔ فاروق جتنادبلا پتلا تھا اتناہی تیز رفتار اور پھر تیلا تھا وہ کسی لحاظ سے پکڑائی نہیں دیتا تھا۔ جب ڈرل کا پیریڈ ہوتا تو وہ ہماری ”فصیل“یعنی گروپ میں پہلے نمبر پر کھڑا کیا جاتا۔ اس کے قد اور سمارٹ ٹرن آو¿ٹ کی وجہ سے۔ عربی میں اس کو ”دلیل “یا گائیڈ کہا جاتا ہے ۔
فاروق خان کے بارے میں آہستہ آہستہ ڈیٹا اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ وہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھتا تھا اس کے والد صاحب بحرین پولیس کے Pioneers میں تھے۔ فاروق پنجابی اور پشتو دونوں برا بر روانی کے ساتھ بولتا تھا جس کی وجہ سے پشتو والے اسے پٹھان جبکہ ہم لوگ اسے پنجابی سمجھتے تھے۔ اس طرح کی بارڈر لائن میں رہنے کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ پٹھان آپ کو پنجابی کہیں اور پنجابی آپ کو پٹھان سمجھیں۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
لیکن حقیقت میں فاروق ان ساری باونڈریز سے ماورا ایک محب وطن اور سچا اور پکا پاکستانی تھا۔ اب اسے وہاں کی شہریت مل چکی ہے مگر اس کا دل اب بھی پاکستانی ہے۔ بیرون مقیم پاکستانیوں کے بارے میں میں اکثر کہتا ہوں کہ وہ Resident پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کے وفادار ہیں۔ 
فاروق سگریٹ پینے کے باوجود بہت اچھا اتھلیٹ تھا اور ریس میں کسی کو آگے نہیں نکلنے دیتا تھا۔ اس کی صحت کا راز ہی شاید سگریٹ نوشی تھی۔ اب وہ شاید مجھ سے یہ سوال بھی کرے گا کہ یہ نوشی کون ہے۔ یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ البتہ اتنا یاد ہے کہ شام ڈھلے بحرین کے دارالحکومت منامہ کے دل میں واقعہ باب الجرین اور دنامہ سوق میں مٹرگشت کرنا اس کا مرغوب مشغلہ تھا ہماری ملاقاتیں اکثر برسرراہ ہی ہوتی تھیں۔ ہم جہاں بھی جاتے تھے فاروق پہلے وہاں پہنچا ہوتا تھا۔ وہ پولیس کی ہاکی ٹیم میں بھی تھا جس کا ریکارڈ تھا کہ وہ ہر سالانہ ٹورنامنٹ میں قومی چیمپین ہوتی تھی۔
فاروق کے ساتھ ہماری پیشہ ورانہ رفاقت زیادہ دیر نہ چل سکی میرا ٹرانسفر قلعہ میں تھا جسے پولیس فورٹ کہا جاتا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہی فاروق بھی ٹرانسفر ہو کر کمیونیکیشن کے شعبے میں آگیا گویا یہاں بھی ستانے آگئے کسی نے پتہ بتا دیا۔
آج فاروق کا وہ گروپ بڑی شدت سے یاد آرہا ہے جس میں مرحوم بہاول حق، مرحوم لالہ زرداد خان، گل رحمن اور دیگر شامل تھے ۔یہ ایک پشتو ادبی گروپ تھا جو ہر جگہ اکٹھے ہوتے تھے بڑے پیارے لوگ تھے میرے ایک اور bestie مرحوم ملک خلیل احمد بھی اس گروپ کا حصہ رہے ان دوستوں کو مرحوم لکھنا بڑا تکلیف دہ ہے زندگی کے قیمتی ترین شب و روز ان کے ساتھ گزرے ہیں۔ 
کچھ دن پہلے فاروق کے ساتھ ویڈیو کال ہوئی اس نے ہمیشہ کی طرح پھر مجھے سرپرائز دے ڈالا۔ اس کے ہیئر سٹائل پر جلن ہوتی ہے۔ کالے سیاہ بال گو ہیئر ڈائی کا کمال ہے مگر سر پر بال ہوں گے تو ہیئر ڈائی ہو گی نا۔ 
فاروق خان اس ہفتے ریٹائرہورہا ہے۔ اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم تو شاید بھرتی ہی ریٹا ئرمنٹ کے لیے ہوئے تھے۔ حقیقی ریٹائرمنٹ تو فاروق کی ہے لیکن اس کی بے چین کیمسٹری بتاتی ہے کہ وہ کبھی ریٹائر نہیں ہوگا ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔ دیکھنا یہ ہے کہ فاروق ریٹائر ہو کر کیا شرارت کرتا ہے۔ سروس کے دوران چھٹی مل جاتی ہے مگر ریٹائرمنٹ سے چھٹی مشکل ہے آپ کو ہر روز ہی ریٹا ئر رہنا ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ فاروق کا زندگی کے بارے میں ولولہ اور شوق کبھی ریٹائر نہیں ہوگا۔

مصنف کے بارے میں