سیلاب اور ایک لاہوری درویش

 سیلاب اور ایک لاہوری درویش

بہت دنوں سے اللہ اکبر تحریک کے بلدیاتی انتخابات کے امیدوا ر برائے میئر لاہورجناب حافظ عبدالرؤف سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ملکی سیاست میں ہونے والی پے درپے تبدیلیوں ¾ مہنگائی اورسیلاب نے درد وکرب کی ایسی اذیت سے دو چار کررکھا تھا کہ دل مہینوں سے ایک مستقل درد کی آغوش میں دن گزار رہا ہے۔میری عادت ہے کہ میں دنیا کے جھمیلوں سے گھبراتا ہوں تو درویشوں میں جا بیٹھتا ہوں تاکہ سکون کے چند لمحے میسر ہوں۔ اِن حالات میں اللہ اکبر تحریک کے امیدوار پی پی149 لاہور معروف شاعرسیاسی اورسماجی کارکن ریاض احمد احسان کا ڈیرہ یقیناً رحمت ِ خداوندی سے کم نہیں۔ شہرِ لاہور کے دکھی دلوں کی یہ پہلی اورآخری قیام گاہ ہے۔جہاں منہ کی غذا کے علاوہ روح کی غذا کے حوالے سے بھی انتہائی ذہین ¾ زیرک اورباذوق لوگوں کی گفتگو سننے کا موقع میسر آ جاتا ہے۔ سو ریاض احمد احسان کو فون کیا اور برادرم حافظ عبدالرؤف کی دستیابی بارے دریافت کیا تو معلوم پڑا کہ محترم حافظ صاحب سیلاب کی آمد کے پیشگی خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے بلوچستان روانہ ہو گئے تھے جہاں سے سیلاب کے ساتھ ساتھ ساتھیوں سمیت ضروریات زندگی کا سامان اٹھائے جنوبی پنجاب آئے لیکن بلوچستان میں بارشوں کی خبر سن کر واپس بلوچستان روانہ ہو گئے اور تاحال بلوچستان اورجنوبی پنجاب کے علاقوں میں مرکز سے پہنچنے والے سامان کی ترسیل و تقسیم میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک شخص جو اپنی سیاسی تنظیم کے طرف سے لاہور کے میئرکا امیدوار ہو پنجاب کے آخری اضلاع اور بلوچستان کے پُرخطر رستوں کی خاک چھان رہا ہو گا۔ جو اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر بغیر کسی شہرت یا حصول ووٹ کیلئے لوگوں کی مدد کر رہا ہوگا۔ کون کہتا ہے کہ قرون اولیٰ کے مسلم رویے ختم ہو گئے؟ درویش اعظم ﷺ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ توروز قیامت ¾ جزا سزا کے بعد بھی جاری رہے گا کہ محمد ﷺ کے درویش صرف مدینہ کو تاجدار شعورﷺ کی ریاست نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس پوری کائنات کو محمد عربیﷺ کی ریاست جانتے اور مانتے ہیں جس پر محمد ﷺ کے رب کے سواءکسی کی کوئی حاکمیت نہیں۔ گناہ و ثواب کی اس دنیا میں انسان خوبیوں اوخامیوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ بہترین انسان وہ ہے جس میں خوبیاں زیادہ اور خامیاں کم ہوں۔معراج انسانیت یا انسانِ کامل صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے۔عظیم اورقابل احترام لوگ ہیں وہ جواُس عظیم اسوہ حسنہ کی پیروی میں تمام دنیاوی لذتوں سے کنارہ کرکے صرف محبوب اعظم کی خوشنودی حاصل کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کردوں کہ آفتیں کچھ لوگوں کیلئے اگر عذاب ہوتی ہیں تو بہت بڑی اکثریت کا امتحان بھی مقصود ہوتا ہے۔ قومیں جب انسانوں کے دکھوں کوختم کرنے کی استطاعت رکھتے ہوئے ایسا نہ کریں تو وہ نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔    
 سیلاب زدہ علاقوں میں حافظ صاحب کی موجودگی کی خبرسن کرمیرے تپتے وجود کو یکلخت ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ شام کے وقت باد نسیم کے جھونکوں نے آنکھیں پرنم اوربوجھل کردیں۔ یوں محسوس ہوا کہ کوئی بوجھ سینے سے اتر گیا۔ ڈوبتے مرد و زن اوربچوں کے تحفظ کا ایک حصار میرے ذہن اور ماحول کے گرد بنتا چلا گیا۔ اللہ اکبرتحریک دریشوں کی جماعت ہے جو وطن عزیز میں آنے والی ہر آفت کے مدمقابل خدائی فوج بن کر کھڑی ہوتی ہے۔دکھی انسانیت کی خدمت ان کی سیاست ہے- چھوٹے قد کا یہ بڑا انسان بہلول لودھی کے قبیلے کا آدمی ہے۔ مٹی کے گھروندے دے کر جنت کے محلوں کا سودا کرلیتا ہے - بالکل اُس پرندے کی طرح ہے جو آتش نمرود بجھانے کیلئے اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کراُس الاؤ¶ پر پھینک رہا تھا جو مہینوں سے دہکایا جا رہا تھا مگر وہ مالکِ کائنات اعمال کو تاجروں کے ترازو میں کب تولتا ہے وہ عمل کے نتیجے میں برآمد ہونے والے فوائد کی گنتی نہیں کرتا۔وہ تو عملوں کے درومدار کو نیتوں کے ترازو میں تولتا ہے۔ سیلاب ہے کہ اُس نے پاکستان کے ہر گھر کو دکھی کر رکھا ہے لیکن میں غور سے لاہور کے شہریوں کو دیکھ رہا ہوں جو 2005 ءکے زلزلے میں گھروں سے نکل کر اپنے بھائیوں کی ہرممکن مدد کیلئے پہنچ گئے تھے لیکن اب لاہورمیں امدادی کیمپ تو نہیں لگے البتہ ویسا ہی رش لیسکو کے دفاتر کے باہر یا بجلی کے بل ادا کرنے والوں کی طویل قطارکی صورت مجھے ہرجگہ دکھائی دے رہا ہے۔ آپ سرکار ﷺ کا فرمایا ہر قول پتھرپر لکیر ہے کہ ”غربت سے توبہ کرکہ یہ کفر تک لیجاتی ہے۔“ برے معاشی حالات خونی رشتے کمزور یا ختم کردیتی ہے۔ یہ تو پھر سماجی رشتے ہیں لیکن جب مجھے دوستوں کے واٹس ایپ سے حافظ عبد الروف صاحب کی تصاویر موصول ہوتی ہیں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں جو اپنے تمام سماجی ¾ سیاسی اور خونی رشتوں کو چھوڑکر اللہ اکبر تحریک کے رضاکاروں کے ساتھ اُن علاقوں میں صفتِ جام پھر رہے ہیں جہاں اُن کا کوئی ووٹر نہیں رہتا ¾ جہاں اُن کے کوئی سیاسی مفادات نہیں ¾ جہاں جا بجابکھری پڑی رحمتِ خداوندی صاحب ِ حیثیت اورمحفوظ انسانوں کو حیرت و حسرت سے تک رہی ہے۔ جہانوں کا رب پکار رہا ہے کہ کوئی ہے جو ان بے سرو ساماں انسانوں کی مدد کرکے اُس کی خوشنودی اورقرب حاصل کرنے کا تمنائی ہو؟ جہاں دم توڑتی حیات انسانی ضمیر کی منتظر ہے ¾ جہاں پاکستان کو کنگال کرنے والے سیاستدانوں ¾ سرکاری ملازموں ¾ گدی نشینوں ¾ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی راہ تکتے معصوم بچے بوند بوند پانی اوردانہ دانہ خوراک کے منتظر ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ان حالات میں میرے شہر کے درویش بہلول تن تنہا بے رحم سیلاب کی موجوں سے انسانی زندگیاں چھین کرانہیں محفوظ مقامات پر پہنچا رہے ہیں۔ 
افواج پاکستان نے اپنے کیمپ لگا لیے ہیں سوشل میڈیا پر لوگ سیاسی جماعت کو فنڈ دینے کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت پر اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں البتہ افواج ِ پاکستان کے حوالے سے اُن کا نقطہ نظر مختلف ہے۔ میں حکومت پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ ریاست پاکستان کے تمام ملازمین کی چھٹیوں کی تنخواہیں (ہفتہ اتوار) کا ٹ کر انہیں سیلاب زدگان پر خرچ کیا جائے اور اس پالیسی کا اطلاق صرف محفوظ علاقوں کے ملازمین پر ہو۔سینٹ ¾ قومی اسمبلی ¾صوبائی اسمبلیاں اور ان کی سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تمام سہولتیں چھ ماہ کیلئے ختم کردی جائیں۔ سیلاب جسے ہم آفت قرار دیتے ہیں عقل مند لوگ اسے مس مینجمنٹ کہتے ہیں۔ انسان روز ِ اوّل سے بے رحم قدرت کے خلاف برسرپیکار ہے۔ اور جن قدرتی ”آفات“ سے خوفزدہ ہو کر کل تک انسان اُن کی عبادت کرتا تھا آج وہ اُن پر قابو پا چکا ہے۔ دریاؤں کی عبادت بھی دنیا کے مختلف مذاہب میں ہوتی رہی ہے لیکن جب دریاؤں پر بند باندھ کر ڈیم بنا لئے گئے یہ عبادات یا تو ختم ہو گئیں یا صرف روایتی رہ گئیں۔ ہم آج بھی اپنی غلطیوں کی پردہ پوشی کو آفت کا نام دے کر اپنی نالائقیاں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔
 میں حافظ عبدالرؤف کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو یہ ضرور سوچتا ہوں کہ بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہی ہے اوروہ جو اپنی ہر قیمتی شے اللہ کی راہ میں قربان کرکے صرف دکھی انسانیت کی مدد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اُن کے نزدیک خدمت ہی سیاست ہوتی ہے۔

مصنف کے بارے میں