آل پارٹیز کانفرنس کی شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو مستعفی ہونے کیلیے 7 روز کی مہلت

آل پارٹیز کانفرنس کی شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو مستعفی ہونے کیلیے 7 روز کی مہلت

لاہور: پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیر قیادت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ کو مستعفی ہونے کے لیے مزید 7 روز کی مہلت دیدی ہے۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے اختلافات ہوتے ہیں لیکن آج ان جماعتوں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہدا کے خون نے جمع کیا، یہ درست نہیں کہ عوامی تحریک نے ان جماعتوں کو جمع کیا۔یاد رہے کہ طاہرالقادری نے شہباز شریف اور رانا ثنا اللہ کو اپنی اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دینے کیلئے 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی ۔اب آل پارٹیز کانفرنس کے بعد انہوں نے شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کو مزید ساتھ روز کی مہلت دیدی ۔

عوامی تحریک کی ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں ہونے والی اے پی سی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور مجلس وحدت مسلمین سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتیں شرکت کررہی ہیں۔

ان پارٹیز کی طرف سے اجلاس میں سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، میاں محمود الرشید، لیاقت بلوچ، فاروق ستار، رحمان ملک، منظور وٹو، مصطفیٰ کمال، کاملی علی آغا، علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا، صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر، قاری زوار بہادر سمیت دیگر سیاسی و مذہبی شخصیات شریک ہیں۔

اس موقع پر طاہر القادری نے کہا کہ سانحہ ماڈل بدترین ریاستی دہشتگردی کی مثال ہے ۔ عوامی تحریک کی اے پی سی نے 10 نکاتی اعلامیہ جاری کردیا جس میں 

1۔ آل پارٹی کانفرنس سانحہ ماڈل ٹاؤن اور ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی مذموم حرکت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔

2۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ ہے جس میں ن لیگ کی قیادت نوازشریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سمیت بیوروکریٹس، پولیس افسران اور حکومت پنجاب کے اہلکاران ملوث ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر لگائے جانے والے بیریئر ہٹانے کی آڑ میں ذاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ماڈل ٹاؤن میں100افراد کو گولیوں سے زخمی کیا گیا، جن میں سے 14افراد شہید ہو ئے ۔

3۔ ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی اور قوانین کو ختم کرنا کروڑوں مسلمانوں کی ایمانی اساس پر حملہ ہے بلکہ یہ آئین پاکستان پر بھی حملہ ہے، کیونکہ یہ مسئلہ آئین پاکستان کی رو سے ہمیشہ کیلئے حل ہو چکا تھا ،نواز شریف اور ن لیگ بطور جماعت اس قانونی دہشتگردی میں براہ راست ملوث ہیں اور ایمان کی بنیادی اساس پر حملہ کے ماسٹر مائنڈ تاحال منظر عام پر نہیں لائے گئے اور نہ ہی اصل ذمہ داروں کو کوئی سزا ملی۔ ایمان کی بنیادی اساس پر حملہ کے بعد ن لیگ اقتدار پر مسلط رہنے کا جواز کھو چکی ہے جب تک ختم نبوت کے قانون کو ختم کرنے کی مذموم حرکت میں ملوث اصل ذمہ داروں کو سزائیں نہیں ملتیں اس وقت تک یہ تنازع رہے گا ،اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ ذمہ داروں کو کڑی سزا دی جائے۔

4۔اے پی سی اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ 17 جون 2014 ء کے دن ماڈل ٹاؤن میں جن افراد کو شہید یا زخمی کیا گیا وہ صرف پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان ہی نہیں بلکہ ریاست پاکستان کے شہری تھے جن کے انصاف کیلئے اجتماعی جدوجہد کرنا اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اے پی سی اس سلسلے میں آئندہ پوری جدوجہد کو Ownکرتی ہے ،مزید یہ بھی سمجھتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے معاملے میں انصاف کی فراہمی قومی سطح پر نظام عدل کے نفاذ اور قانون کی بالا دستی کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی ۔

5۔شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مظلوم ورثاء ساڑھے تین سال کی طویل قانونی جدوجہد کے بعد صرف جسٹس باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ حاصل کر پائے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف ،شہباز شریف اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ملزمان کے برسراقتدار رہتے ہوئے صاف و شفاف تحقیقات ،ٹرائل اورحصول انصاف ناممکن ہے،125 پولیس افسران کے سمن ہونے کے باوجود ایک بھی ملزم کو گرفتار نہیں کیا گیا ۔یہاں تک کہ قتل عام کا منصوبہ بنانے والے حکومتی لیڈرز اور بیوروکریٹس میں سے بھی کسی ایک کو طلب نہیں کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکومت انصاف کی فراہمی میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

6۔اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے شہباز شریف ،رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام اور اس قتل عام کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے لہٰذا وہ اورسانحہ میں ملوث ان کے دیگرحکومتی حواری ،جملہ شریک ملزمان اوربیوروکریٹس 7 جنوری 2018 ء سے پہلے مستعفی ہو جائیں۔ اے پی سی متفقہ طور پر31دسمبر کی ڈیڈ لائن میں7 جنوری 2018ء تک کی توسیع کرتی ہے ۔اگر قتل عام کے ملزمان کے7جنوری تک استعفے نہ آئے تو سٹیرنگ کمیٹی اسی دن 7جنوری کو اجلاس منعقد کرے گی اور آئندہ کے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔

7۔اے پی سی تمام صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے مطالبہ کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام میں ملوث شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کے مطالبہ پر مبنی قراردادیں منظور کروائیں ۔

8۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی 2 ایف آئی آرز درج ہیں اور پنجاب حکومت کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی دو جے آئی ٹیز بنائی گئی تھیں، ان جے آئی ٹیز میں شہداء کے ورثاء اور زخمیوں میں سے کسی کی گواہی ریکارڈ نہیں کی جا سکی یعنی مدعیان مقدمہ کی شہادت تاحال کسی جے آئی ٹی کے ریکارڈ پر نہیں ہے۔ فیئر ٹرائل کیلئے مضروبین ،متاثرین اور مدعیان مقدمہ کی شہادت ریکارڈ پر لانا قانون کا ناگزیر تقاضا ہے ۔لہذا اے پی سی چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے درخواست کرتی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک اذیت ناک انسانی المیہ ہے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انسانیت کے خلاف،سٹیٹ کے خلاف اور پبلک کے خلاف سنگین جرم پر سووموٹو ایکشن لیتے ہوئے قتل انسانی کے اس سانحہ کی صحیح اور مکمل تفتیش کیلئے غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کا حکم دیں جس کی مانیٹرنگ سپریم کورٹ کاایک معزز جج خود کرے۔

9۔ اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ کسی اندرونی ،بیرونی دباؤ کے تحت سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان اور قومی دولت لوٹنے والے شریف خاندان کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہ دیاجائے ،کوئی ماورائے قانون ریلیف دیا گیا تو قوم اسے ہر گز قبول نہیں کرے گی۔

10۔اے پی سی نے مقرر کی گئی ڈیڈ لائن پر آئندہ کے لائحہ عمل کے اعلان کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو اے پی سی کی سٹیرنگ کمیٹی کہلائے گی، سٹیرنگ کمیٹی ہنگامی صورتحال میں فیصلے کرنے کی مجاز ہو گی۔

سٹیرنگ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی 

سٹیرنگ کمیٹی کے ممبران درج ذیل ہوں گے1۔ پاکستان پیپلز پارٹی( قمر الزمان کائرہ،سردار لطیف خان کھوسہ)تحریک انصاف(شفقت محمود، عبدالعلیم خان)عوامی مسلم لیگ(شیخ رشید) پاکستان مسلم لیگ ق(سینیٹر کامل علی آغا) جماعت اسلامی (لیاقت بلوچ )مجلس وحدت المسلمین( علامہ ناصر شیرازی) پاک سرزمین پارٹی(رضا ہارون، مصطفیٰ کمال ) مسلم کانفرنس(سردار عتیق احمد خان) سنی اتحاد کونسل(صاحبزادہ حامد رضا) ،بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی (سید احسان شاہ) ۔

جبکہ میاں منظور احمد وٹو، جہانگیر ترین ،خرم نوازگنڈاپور سٹیرنگ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہونگے۔