اونچی ذات کے ہندوؤں کادلتوں پر ظلم و ستم

اونچی ذات کے ہندوؤں کادلتوں پر ظلم و ستم

یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں ہر دس منٹ میں ایک دلت نشانہ ستم بنتا ہے۔گو کہ دلت بھی مذہباً ہندو ہوتے ہیں لیکن ذات پات کے رواج میں یہ کم ترین ذات ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ دلتوں کو بھارت میں گھر بنانے کی اجازت نہیں۔ وہ جھونپڑوں، گھاس پھوس کے بنے کچے گھروں میں تو رہ سکتے ہیں مگر پکے گھر وں میں نہیں۔ 
 پیدائش اور اونچ نیچ کی بنیاد پر ایسے واقعات کی خبریں سامنے آتی ہیں تو یہ خیال ہر انسان کے ذہن کو کچوکے لگاتا ہے کہ کیا آج بھی ایک انسان دوسرے انسان کو محض پیدائش کی بنیاد پر جانور سے بھی کم تر سمجھتا ہے؟ کیا اس ملک سے صدیوں سے جاری پیدائش کی بنیاد پر روا  امتیازی سلوک اور ظلم و تشدد کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا، جہاں مویشیوں اور حشرات کو بھی تکریم سے پوجا جاتا ہے؟ 
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ظلم،غربت اور سماجی تفریق کے شکار نچلی ذات کے ہندو تیزی سے دیگر مذاہب میں داخل ہورہے ہیں جن میں سب سے زیادہ افراد اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔ 1950 میں بھارت نے ہندو ذات پات کو ختم کردیا تھا لیکن اس کے باوجود صدیوں پرانی تفریق اور تعصب بھارتی معاشرے میں  موجود ہے۔ بھارت کی ایک ارب 20 کروڑ کی آبادی میں 84 فیصد ہندو ہیں اور اب بھی برہمن، کشتری، ویش اور شودر جیسے طبقات میں تقسیم ہیں جب کہ دلت (نچلی ذات) یا شودر بھارتی کچرا اْٹھانے اور صفائی وغیرہ کے کام کررہے ہیں اور اسی بنا پر ان کی بڑی تعداد اسلام کی جانب مائل ہورہی ہے اور اس کے علاوہ ان کی تعداد سکھ اور عیسائیت کی جانب بھی راغب ہورہی ہے۔
 اسلام قبول کرنے والے ایک دھوبی نے بتایا کہ اسلام قبول کرنے سے خاندانی عداوت اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ہندووں کے مطابق دنیا میں مسلمانوں کا تاثر بہت اچھا نہیں جب کہ ایک اور شخص عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ دلت سے مسلمان ہونے کے بعد ان کے پرانے مذہب کے افراد نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں ان کے پیر اور سینے پر گولیاں ماری گئیں۔ دلت افراد کی عام شکایت یہ ہے کہ ملازمتوں میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور وہ صرف غلاظت اٹھانے اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کا کام کرتے ہیں۔ بھارت کے دیگر علاقوں کے دلت افراد بدھ ازم سمیت دیگر مذاہب اختیار کررہے ہیں جب کہ مدھیا پردیش میں دلت افراد کی سب سے زیادہ تعداد اسلام قبول کررہی ہے۔
 ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں اعلیٰ ذات کے ہندووں کے خلاف 2 سال سے احتجاج کرنے والے نچلی ذات کے ہندوؤں نے اسلام قبول کر لیا۔ہندوستان کے علاقے ہسار کے بگانا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ان خاندانوں کا تعلق دلت ذات سے بتایا گیا تھا۔ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں خاندانوں کی تعداد 100 بتائی ہے۔دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق دلت خاندانوں کے اس اعلان کے بعد ہندوستان کی انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ مذہب کی یہ تبدیلی دلت خاندانوں کا استحصال ہے۔ دلت تنظیم کے کنونیئر جنگدیش کاجلا کا کہنا ہے کہ ’ہم ہندو مذہب ترک کررہے ہیں اور اب انتظار کرکے تھک چکے ہیں۔ جنگدیش کاجلہ کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ اور پولیس سے مل چکے ہیں جس کے جواب میں انہیں صرف وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا، کسی فرد نے کچھ نہیں کیا۔ ایسی کمیونٹی میں رہنے کا جواز کیا ہوتا ہے جب کوئی اس وقت ہمارے پاس نہیں آتا جب اس کی ضرورت ہو۔ ان کے ساتھ جانوروں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔
بھارتی میڈیا کی بھی یہی رپورٹ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف مظالم بڑھ گئے جس پر بھارتی ریاست اترپردیش کے دلتوں نے فیصلہ کر لیا کہ حکومت انصاف کرے ورنہ ہندو مذہب چھوڑ کراسلام قبول کر لیں گے۔ بھارت میں نچلی ذات کے دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔کبھی دلتوں کو زندہ جلایا جاتا ہے تو کبھی انہیں زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے مگر اب دلتوں نے حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔اترپردیش میں ایک ہزار دلتوں نے حکومت کو ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام اپنانے کی دھمکی دی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دلت خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور عصمت دری کے واقعات کا نوٹس لیا جائے اور انہیں انصاف مہیا کیا جائے مگر بھارت میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے،بجائے اس کے کہ ریاستی پولیس دلتوں کی آواز سنتی اس نے روایتی بیان داغ دیا کہ ہم تفتیش کررہے ہیں اگر کوئی پریشانی ہے تو دلت پولیس سے رجوع کریں۔
اس وقت بھارت میں بالخصوص بی جے پی کی موجودہ مودی سرکار کے دور میں مسلمانوں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کی جو درگت بن رہی ہے اور حکومتی سرپرستی میں انہیں جس طرح جبری ہندو بنایا جارہا ہے‘ اسکے پیش نظر بھارت کے سیکولر چہرے اور ”آہنسا“ کے پرچار کی مکمل طور پر قلعی کھل چکی ہے جبکہ اقوام عالم کو اسی حوالے سے انتہا پسند جنونی ہندوؤں کی نمائندہ مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق نظر آتے ہیں اس لئے عملاً ہندو ریاست میں تبدیل ہوتے بھارت میں کوئی اقلیت وہاں مستقل رہائش اور شہریت حاصل کرنے کا رسک لینے کی روادار نہیں ہو سکتی۔  بھارت میں مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی اقلیتیں تو کجا‘ نچلی ذات کے دلت ہندوؤں کا بھی جنونی برہمنوں اور کھتریوں کے ہاتھوں جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ مغربی دنیا کو شاید بھارت میں مسلمان اقلیتوں کو جبری ہندو بنانے پر زیادہ تشویش لاحق نہیں ہوئی ہو گی مگر عیسائیوں کو جبری ہندو بنانے کے بھارتی اقدامات نے مغرب و یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیکر بھارت پر ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔