انجام سامنے رکھیں

 انجام سامنے رکھیں

ملک میں مہنگائی آخری حدوں کوچھورہی ہے،اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی دسترس سے باہراوردوربہت دورہوگئی ہیں،بڑھتی مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے باعث ہرگھراوردرمیں فاقوں نے ڈیرے ڈالنا شروع کردیئے ہیں،لوگ بھوک وافلاس سے بلک اورروٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے تڑپ رہے ہیں لیکن حکمرانوں سے سیاسی نادانوں تک کسی کواس کی کوئی پروا نہیں۔کیاحکمران اور کیا اپوزیشن۔؟سارے اقتداراورکرسی کے چکرمیں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کودوبارہ اقتدارپانے کے لئے اسمبلی توڑنے کی فکرہے اورکسی کو اقتدار بچانے کے لئے اسمبلی کوجوڑے رکھنے کا خیال۔ پر۔ عوام کی کسی کوکوئی فکرہے اورنہ کوئی خیال۔عمران خان سے لیکر مولانافضل الرحمن تک سارے سیاستدانوں اورلیڈروں کی سیاست اس وقت کرسی سے شروع ہوکرکرسی پرہی ختم ہورہی ہے۔ ساڑھے تین چارسالہ حکمرانی میں عوام کابھرپورطریقے سے خون نچوڑنے اوربھرکس نکال کے بعدبھی عمران خان کادل اورکلیجہ ابھی ٹھنڈانہیں ہوا۔وہ اب بھی ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں کہ غریبوں کے تن بدن میں بچایہ خون بھی کسی طرح جلدسے جلد نچوڑا جائے۔ اسی لئے تو وہ ملک میں جلدسے جلدنئے انتخابات کی بات کر رہے ہیں۔  عمران خان کو اگر اقتدار اور کرسی نہیں عوام کی کوئی فکرہوتی تووہ نئے 
انتخابات کے بجائے عوام کو ریلیف دینے کی کوئی بات کرتے لیکن جب سے اس کو اقتدار کے محل سے بیدخل کیا گیاہے تب سے یہ انتخابات،انتخابات کے سواکوئی اوربات کرنے کے لئے تیارہی نہیں۔اسی طرح مولانا فضل الرحمن  جیسے وہ سیاستدان اور لیڈر جو اقتدار ملنے سے پہلے ملک میں مہنگائی کا رونا رو کر عوام کے دکھ،درداورغم میں شریک ہواکرتے تھے اقتدارکی گلی میں جانے کے بعداب ان کی نظریں بھی اقتدارسے ہٹ نہیں رہی۔ سچ پوچھیں تواس وقت صرف مولاناصاحب ہی نہیں سارے مریدبھی اقتدارکی رنگینیوں میں کہیں کھوگئے ہیں۔اسی وجہ سے توعوام کی آہ وبکااورچیخ وپکارکی کسی کوکوئی پروا ہے اورنہ کوئی احساس۔اقتدارکے نشے میں رعایاکوبھولنے والوں کاکیاانجام ہوتاہے یہ کوئی عمران خان سے پوچھے۔یہ الگ بات کہ عمران خان اپنے اس انجام کوماننے کے لئے تیارنہیں۔کون کہتاتھاکہ بہت سوں کی آنکھوں کایہ تارااس طرح وقت سے پہلے پارہ پارہ ہو گا۔پھراس لاڈلے اوروقت کے ایک طاقت ورحکمران کے ساتھ رات کی تاریکی میں جوکچھ ہواوہ پوری دنیانے دیکھا۔ رعایاکے معاملے میں جورویہ سابق بادشاہ عمران خان نے اپنایاتھاوہی رویہ اب موجودہ حکمرانوں نے بھی اپنایا ہوا ہے۔ موجودہ حکومت کواقتدارمیں آئے چھ سات ماہ ہوگئے ہیں لیکن اس عرصے میں عوام کوریلیف دینے کے لئے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایاگیابلکہ ملک میں مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کی رفتارپہلے سے بھی بڑھ چکی ہے۔ مولانا اور اس کے سیاسی مرید اگر عمران خان کی طرح سمجھتے ہیں کہ اقتدارملنے کے بعداب ان کاعوام سے کوئی لینادینانہیں تویہ ان کی خام خیالی ہے۔ عوام کو بھولنے والے حکمرانوں کا پھر وہی انجام ہوتا ہے جو ماضی قریب میں عمران خان کا ہوا۔ ایسے حکمرانوں اور بادشاہوں کوپھرنہ لوگ یاد کرتے ہیں اورنہ تاریخ میں ان کانام ملتا ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کوآج لوگ کیوں یاد کر رہے ہیں۔ چور چور کے نعرے، القابات اور الزامات اپنی جگہ لیکن نوازشریف نے بطور قائد، لیڈر اور ایک سیاستدان کے عوام کا ہمیشہ خیال رکھا۔ان کے ادوارمیں غریبوں پرکبھی اس طرح زمین تنگ نہیں ہوئی نہ ہی لوگ مہنگائی،غربت اوربیروزگاری کے باعث اپنی زندگیوں سے کبھی اس قدر بیزار ہوئے۔ حکومتوں میں لوٹ مار اور کرپشن یہ کوئی نئی بات نہیں جس طرح ایک ایماندار کی حکومت میں گھڑیاں شڑیاں ادھرادھرہوئی شائد کہ نوازشریف کے ادوارمیں بھی کوئی چیز ادھر ادھر ہوئی ہولیکن نوازشریف کے ادوارمیں ملک وقوم کے لئے جوکام ہواوہ یقینی طورپرکسی اوردورمیں نہیں ہوا۔ مولانا، ان کے سیاسی مریدوں اور خاص کر وزیراعظم شہبازشریف کونوازشریف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کوریلیف دینے کے لئے فوری طور پر ہنگامی اقدامات اٹھانا ہونگے ورنہ بصورت دیگران سب کو عمران خان اور بادشاہ ضحاک کے انجام کے لئے تیاررہناہوگا۔