نیب قوانین پر ڈیڈ لاک حکومت کی طرف سے ہوا،احسن اقبال

نیب قوانین پر ڈیڈ لاک حکومت کی طرف سے ہوا،احسن اقبال

اسلام آباد:مسلم لیگ (ن )کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ نیب قوانین پر ڈیڈ لاک حکومت کی طرف سے ہوا ہے، حکومت نے گمراہ کیا کہ اپوزیشن نیب میں رعایتیں مانگ رہی ہے،اپوزیشن کی ترامیم کا محور سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے تجاویز دی تھیں، کہا تھا کہ جو منظور ہیں یا نامنظور ہیں وہ بتائیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے بجائے فیڈ بیک دینے کے ان تجاویز کو ماننے سے انکار کر دیا، حکومت نے گمراہ کیا کہ اپوزیشن نیب میں رعایتیں مانگ رہی ہے، نیب کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ا نہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی ترامیم کا محور سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں، سپریم کورٹ نیب کو بہت سے اختیارات کو نا جائز قرار دے چکی ہے ، ہم نے نیب قوانین ترامیم میں اپنی طرف سے کوئی فرمائش نہیں کی، چاہتے ہیں کہ نیب قوانین کو آئین اور مروجہ قوانین سے ہم آہنگ کیا جائے۔

انہوں  نے کہا کہ نیب کو پولیٹیکل انجینئرنگ کاقانون نہیں ہونا چاہیے، اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں میں بھی کچھ نیب قوانین کو اسلامی تعلیمات سے متصادم قرار دیا گیا ، حکومت کے پاس قومی اسمبلی میں اکثریت ہے، کسی قانون کو بلڈوز کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، ایک قانون پر اتفاقِ رائے بھی ہوا تھا، مگر حکومت نے اسے بلڈوز کرنے کو ترجیح دی۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت پارلیمانی اور جمہوری عمل پر یقین نہیں رکھتی، یہ اکثریت کے ساتھ چیزوں کو بلڈوز کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان ایسے کالے قوانین منظور کرانا چاہتے ہیں تاکہ مخالفین کو جیل میں ڈال سکیں، میر شکیل الرحمن اور کئی اپوزیشن رہنما ئوں کو جیل میں ڈالا ہوا ہے، کئی اپوزیشن رہنمائوں کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس سے ضمانت ملی، چاہتے ہیں کہ حکومت جمہوری روایات کے مطابق اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے۔

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف سمیت قومی مسائل پر اتفاقِ رائے سے قانون سازی ہونی چاہیے، حکومت ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں کالا قانون نافذ کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ حکومت ان قوانین کی آڑ میں کسی کو ہراساں نہ کرے، لوگوں کو ناجائز طور پر دبائومیں نہ لائے، بنیادی حقوق نہ چھینے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف اے ٹی ایف پر کوئی اختلاف نہیں، اختلاف حکومت کے ان عزائم سے ہے جو ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں کالے قوانین مسلط کرنا چاہتی ہے، ان قوانین کے لیے ایف اے ٹی ایف نے ان سے تقاضا بھی نہیں کیا.