عام انتخابات کے فوری انعقاد کے نتائج

عام انتخابات کے فوری انعقاد کے نتائج

عام انتخابات کے فوری انعقاد کے لئے پی ٹی آئی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ جوں جوں ہمارے سیاسی مسائل گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں ویسے ہی انتخابات کے فوری انعقاد کی باتیں بھی اونچی سروں میں ہونے لگی ہیں۔ ن لیگی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر راضی ہو تو عام انتخابات کے انعقاد بارے سوچا جا سکتا ہے گویا مکمل طور پر ’’نا‘‘ نہیں ہے مشروط مرضی ہو سکتی ہے۔ ہمارا جاری سیاسی نظام سردست ڈلیور کرنے میں بری طرح نہیں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہا ہے اس کی وجہ نظام بذات خود نہیں ہے کیونکہ نظام فکری اعتبار سے ’’فرد کی رائے‘‘اور ’’عوام کی مرضی‘‘ کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے اسی نظام کے تحت ہمارے دشمن ہمسائے بھارت نے تعمیروترقی کی بے مثال روایات قائم کر دکھائی ہیں اسی نظام پر عمل پیرا ہو کر ،مودی جیسا بے وسیلہ، سیاسی کارکن منظر پر چھایا ہے، اس نے گزری 3/4دہائیوں کے دوران اس نظام کے بل بوتے پر اپنی قیادت اور کارکردگی کا سکہ جما لیا ہے۔ بنگلہ دیش کی ترقی ہمارے سامنے ہے۔ بنگالیوں نے ہم سے الگ ہونے کے بعد فوجی ڈکٹیٹر شپ کو بھی اپنے سے الگ کر کے ’’فرد کی حکمرانی‘‘  کے نظام کو رائج کر کے معاشی تعمیروترقی کی روشن مثالیں قائم کی ہیں۔ سیاسی استحکام کے ذریعے ہی معاشی ترقی ممکن ہوتی ہے ایسا ممکن نہیں ہے کہ ہاتھ میں کشکول ہو اور ہم سفارتی میدان میں کسی بھی عزت و احترام کے مستحق قرار پائے جائیں۔
پاکستان اپنی تخلیق کے ابتدائی چند سال کے بعد سے سیاسی طور پر کسی مستحکم اور دیرپا نظام کے مطابق آگے نہیں بڑھا ہے ہمارے ہاں ایوبی دور حکمرانی (1958-1969) کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ ’’شاندار دور‘‘ تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ مارشل لا کے تحت معاشی ترقی ہوئی۔ کارخانے لگے، زراعت پھلی پھولی، دولت مند گھرانے معرضِ وجود میں آئے۔ سیاسی استحکام لانے کے لئے دستور سازی بھی کی گئی لیکن ہم نے دیکھا کہ ایوب خان نے خود ہی اپنی آئینی بساط کو اپنے ہاتھوں لپیٹ کر اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا حالانکہ دستور 1962میں درج تھا کہ جنرل ایوب صدر پاکستان کی عدم دستیابی کی صورت میں اقتدار سپیکر کے حوالے کیا جائے گا۔ کیونکہ یہ نظام عوامی خواہشات کے مطابق نہیں تھا اسے ایوبی آمریت کو تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس لئے یہ اپنی موت آپ مر گیا۔ یہ اسی نظام کا کمال تھا کہ ایوبی دور حکمرانی کے دوران بنگالیوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی۔ کسی معقول سیاسی نظام کی عدم موجودگی کے باعث گھٹن پیدا ہوئی جو 1971 میں سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت میں سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی ایوب خان کا مسلط کردہ سیاسی نظام بھی زمین بوس ہو گیا اور معاشی چمک دمک بھی غائب ہو گئی۔
پھر بھٹو دور آیا 73ء کا دستور بنا جو ہنوز کسی نہ 
کسی شکل میں نافذالعمل ہے۔ 77ء میں جنرل ضیاء الحق کا مارشل لا پھر 1988 میں جمہوری دور پھر 2001 میں جنرل مشرف کا مارشل لا پھر 2008 میں پارلیمانی جمہوری دور شروع ہوا۔ اس طرح ہمارا نظام حکمرانی دائیں بائیں ہچکولے کھاتے ہوئے آج اس مقام پر آن پہنچا ہے جہاں ڈیڈلاک ہے۔ ایک طرف فوری انتخاب کا مطالبہ ہے اور دوسری طرف مدت پوری کرنے کی خواہش ہی نہیں بلکہ عزم بالجزم بھی نظر آ رہا ہے۔ ایک فریق مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ موجودہ الیکشن کمیشن کو مانتا ہی نہیں ہے لیکن فوری انتخابات کا مطالبہ بھی ہے۔ عجیب تضاد ہے لیکن بڑے زوروشور سے فوری انتخابات کا کہا جا رہا ہے۔
ہماری معاشی حالت یہ ہے کہ ہمارا غیرملکی قرض کا حجم 31 مئی 2022 تک 126 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ پارلیمان میں پیش کردہ دستاویز کے مطابق پاکستان کو 2022 تا 2059 سود اور اصل زر کی مد میں 95 ارب چالیس کروڑ ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔مہنگائی کی شرح 30 فیصد کے اردگرد کھڑی ہے۔ پٹرول، گیس اور بجلی کی گرانی فی الحقیقت جان لیوا ہو چکی ہے۔اشیا ضروریہ بشمول خورونوش کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ عام شہری کے لئے دو وقت کی روٹی خواب و خیال بنتی جا رہی ہے۔ مہنگائی کی بے لگامی نے عام شہری کے اعصاب شل کر دیئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے ملنے والے 1 ارب 17 کروڑ ڈالر ہمارے پالیسی سازوں کے اعصاب پر سوار ہے وہ ہر روز قوم کو ’’یہ رقم‘‘ ملنے کی خوشخبریاں سنانے پر لگے ہوئے ہیں۔
ایسے غیرمستحکم سیاسی حالات میں جب قومی و عوامی معیشت دگرگوں کا شکار ہے عمران خان اپنی قوم کو ’’مارو، لڑائو، بھگائو‘‘ کے نعروں کے ذریعے تشدد پر آمادہ کئے بیٹھے ہیں۔ ثناء اللہ اور تارڑ کے پنجاب داخلے پر پابندی کا اعلان بھی کر چکے ہیں جواباً رانا ثناء اللہ عمران خان کو بنی گالہ میں محصور و محدود کرنے کا بیان دے چکے ہیں۔ ایسی مسموم سیاسی فضا میں انہیں غیرمستحکم سیاسی فضا اور دگرگوں معاشی حالات میں کیا عام انتخابات کا فوری انعقاد ہمارے لئے، ہماری معیشت کے لئے، ہماری قومی سلامتی کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ فکری اور نظری طور پر تو اس کا جواب مثبت ہے کیونکہ جمہوریت میں مسائل کا حل انتخابات، انتخابات اور انتخابات ہی میں نظر آتا ہے۔ ہمارے سامنے کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیںکہ عوام کی رائے کے غالب ہونے کے نتیجے میں مسائل حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں عام انتخابات کی ایسی تاریخ نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یحییٰ خان کے دور حکمرانی میں منعقد کئے جانے والے عام انتخابات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر شفاف انتخابات تھے۔ ہم نے دیکھا کہ انہی انتخابات کے بعد کشمکش میں اضافہ ہوا اور انجام کار بھارتی فوجی مداخلت کے ذریعے سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری مقتدرہ نے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا۔ اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جس کے نتیجے میں سیاسی خلفشار میں اضافہ ہوا اور پھر پاک فوج کے ملٹری ایکشن نے معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچا دیا اور اس طرح سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا۔
جاری سیاسی و معاشی صورتحال خاصی دگرگوں نظر آ رہی ہے۔ ایک دوسرے کو نہ ماننے اور شکست فاش سے ہمکنار کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ 2018 کے انتخابات کے حوالے سے ایک سیاسی جماعت، مقتدرہ سے شاکی نظر آ رہی ہے تو اپریل 2022 کی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے حوالے سے دوسری سیاسی قوت نالاں ہے عدلیہ کا کردار بھی زیربحث ہے اس کی فیصلہ سازی اور غیرجانبداری پر بھی قوم کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔ہماری مقتدرہ، عسکری اسٹیبلشمنٹ بھی متنازع ہو چکی ہے ان کی صفوں میں افتراق و اختلاف کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ سیاست کا کھیل بغیر اصول اور ایمپائر کے جاری ہے کھلاڑی اپنی فتح سے زیادہ، فریق ثانی کی شکست کے لئے کوشاں ہیں۔ سیاست میں بداخلاقی و دشنام طرازی عام ہو چکی ہے۔ اپنی بات سے مکر جانا اور جھوٹ بولنا پالیسی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ حقائق کو مسخ کر کے پیش کرنا، پروپیگنڈہ تکنیک بن چکا ہے قوم اتفراق و تفریق کے ساتھ ساتھ، معاشی پریشانیوں میں غلطاں و پیچاں ہے ایسے ماحول میں فوری انتخابات کیا نتیجہ لائیں گے اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

مصنف کے بارے میں