عمران خان نے چندے کا پیسہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، حساب دینا ہوگا: محمد زبیر

عمران خان نے چندے کا پیسہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا، حساب دینا ہوگا: محمد زبیر
سورس: File

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیرنے کہا ہے کہ قوم کو ایمان داری کا لیکچر دینے والے عمران خان کوفارن فنڈنگ کا حساب دینا ہوگا۔ فنانشل ٹائمز کی سٹوری فارن فنڈنگ کاایک چھوٹاسا حصہ ہے، حضرت عمرفاروق کی چادرکی مثالیں دینے والا عمران خان خوداحتساب کیلئے تیارنہیں ہے، عمران خان سے فارن فنڈنگ کا سوال کریں گے اور باربار کریں گے۔

ہفتہ کو یہاں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما محمدزبیرنے کہا کہ فارن فنڈنگ کیس 8 سال سے الیکشن کمیشن میں پڑا ہے تاکہ عمران خان اورپی ٹی آئی اس کاجواب دیں۔ یہ ایک سادہ کیس ہے، باہر سے پیسے آئے ہیں اورملکی قانون کے مطابق ان پیسوں کے ذرائع اورماخذ بتانا ضروری ہے۔  یہ کیس مسلم لیگ ن یاپی پی پی نے نہیں بلکہ اکبرایس بابر نے فائل کیاتھا جو  تحریک انصاف کے بانی رکن ہے ۔ اکبرایس بابرنے 2014 میں یہ کیس فائل کیا اورشواہد پیش کئے جس میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ کون سے ذرائع سے کون سے اکاؤنٹس میں کتنے پیسے آئے تھے اوران میں سے کتنے ڈکلئیرکیے گئے اورکونسے ڈکلئیرنہیں کیے۔ ملکی قانون کے مطابق تمام پیسوں کے ذرائع اوران منتقل ہونے والی اکاؤنٹس کو ڈکلئیرکرنا ضروری ہے۔ 

عمران خان سب سے زیادہ سچے اورایماندار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ۔ سب پرانگلی اٹھاتے ہیں، الزام لگاتے ہیں کہ فلاں نے حساب نہیں دیا فلاں نے رسیدیں نہیں دیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ جناب آپ اپنا حساب تودیں لیکن وہ کبھی ہائیکورٹ بھاگتے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن میں کارروائی رکواتے ہیں۔  کبھی سپریم کورٹ بھاگتے ہیں، اس عمل میں 8 سال گزرگئے ہیں۔

محمدزبیرنے کہاکہ برطانوی اخبارفنانشل ٹائمز میں جورپورٹ شائع ہوئی ہے وہ اسی فارن فنڈنگ کاایک چھوٹاسا حصہ ہے، وقفے وقفے سے کہانیاں سامنے آتی ہے کہ فلاں فلاں نے پیسے دئیے تھے جس کی تفصیلات عمران خان نے چھپائی ہے۔فنانشل ٹائمزنے کہاہے کہ کس طرح چیریٹی کیلیئے جمع کردہ غیرقانونی پیسہ کو پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا گیا اورپھر اسے ڈکلئیر نہیں کیا گیا۔

محمد زبیرنے کہا کہ جب وزیراعظم محمد شہباز شریف کے خلاف برطانیہ کے ڈیلی میل میں سٹوری شائع ہوئی توہم نے اس پرکیس کیا۔ برطانوی عدالتوں نے صرف برطانیہ نہیں بلکہ یواے ای اورپاکستان سے منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کی اورکلین چٹ دی کہ کوئی منی لانڈرنگ نہیں ہوئی ۔عمران خان اورپوری پی ٹی آئی کیلئے اب موقع ہے جس طرح وہ اپنے آپ کو صاف، پوتر اورسب سے ایمان دارظاہرکررہے ہیں تو آپ فنانشل ٹائمز کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ دائرکرے اگر اخبار نے معافی مانگی توٹھیک ہے اور اگر انکار کر دیا تو مقدمہ دائر کرے۔

محمدزبیرنے کہاکہ عمران خان امیرغریب کیلئے دوقوانین کا لیکچر تواترسے دے رہے ہیں۔  میاں نوازشریف نے کبھی حساب کتاب نہ دینے کی بات نہیں کی ہے بلکہ عدالتوں کاسامنا کیاہے، ان کے خلاف بالکل جھوٹے کیسز بنائے گئے، آج بھی مریم نوازہرروز عدالتوں میں پیش ہوتی ہے، مریم نواز اوروزیراعظم شہبازشریف دوبارجیل جاچکے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد بھی عدالتوں میں جاتے ہیں،عمران خان درست کہتے ہیں کہ پاکستان میں دوقانون ہے، ایک قانون 22 کروڑ عوام کیلئے ہے اورایک مراعات یافتہ عمران خان کیلئے جنہیں عام فہم زبان میں لاڈلا بھی کہتے ہیں۔میں پوچھنا چاہتاہوں کہ 8 سال سے اس کیس کا فیصلہ کیوں نہیں ہورہا۔

محمدزبیرنے کہاکہ عمران خان کہتے ہیں کہ اکبرایس بابرنے جب کیس فائل کیاتھا تووہ تحریک انصاف کے ممبرتھے حالانکہ وہ مثالیں حضرت عمرفاروق کی چادرکا دیتے ہیں، اس کیس میں قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ نواز شریف نے اپنے اثاثوں کا پورا حساب دیا، ہماری پارٹی کے تمام ارکان نے اپنے اثاثوں کا جواب دیا اس کے برعکس عمران خان کبھی عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے۔ محمدزبیر نے کہاکہ عمران خان سے فارن فنڈنگ کا سوال کریں گے اور باربار کریں گے، اگر آپ اتنے صاد ق اورامین ہیں تو اپنے اثاثوں کا جواب دیں۔ محمدزبیرنے کہاکہ ہم نے نیب کیسز اور جیلیں بھگتیں ہیں۔

انہوں نے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کا فیصلہ جلد سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے،وہ حکومت کے کنٹرول میں نہیں، چیف الیکشن کمشنر عمران خان نے خودتعینات کیااور اسکی تعریفیں کیا کرتے تھے، عمران خان اب الیکشن کمشنر کو دھمکیاں دے رہیں ہیں۔

محمدزبیرنے کہاکہ عمران خان کے دور میں چینی اور گندم جیسے بڑے سکینڈل سامنے آئے۔ پاکستان عوام کے اربوں روپے چینی، گندم اورایل این جی میں لوٹے گئے۔ انہوں نے کہا کہ فنڈز ریزنگ کا ایک طریقہ کار ہوتاہے، چیریٹی کا پیسہ سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں ہوسکتا اس کے علاوہ اس پیسے کا حساب کتاب اوراس کوڈکلئیرکرنا ضروری ہے۔ ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ اس لیے کیا تھا کہ کسی کو فیصلے پر اعتراض نہ ہو اورسب اسے قبول کریں گے۔

مصنف کے بارے میں