عجیب تماشا ہے؟

عجیب تماشا ہے؟

ملکِ خداد پاکستان کو معرضِ وْجود میں آئے 75سال ہونے کو ہیں۔یہ ملک تو حاصل کیا گیا تھااِسلام اوردوقومی نظرئیے کی بنیاد پر اور اِس وعدے کے ساتھ کہ ملک کے حصول کے بعد یہاں عملی طور پر اِسلامی اَحکامات کا نفاذ ہوگا لیکن پھر کیا ہوا ، ملک تو مل گیا لیکن وعدے پورے نہ کئے گئے۔ ملک کے اقتدار میں ،نوکر شاہی اور دیگر شعبوں میں ایسے لوگ مْسلّط ہوگئے ،جن کی علمی و ذہنی تربیت میں اِسلام صرف کلمہ پڑھ لینے اور نام رکھ لینے کی حد تک تھا۔ جن کی سوچ میں اِسلامی نظام کے نفاذ کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ سیاسی نظام، مغربی جمہوریت کی بنیاد پر اْستوار کردیا گیا۔بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی خواہش کے برعکس معاشی نظام اِسلامی اْصولوں پر قائم کرنے کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثر کردیا گیا۔ جس کی بنیاد ہی سْود پر ہے، جس نظام میں سود کو ایک جزوِ لاینفک کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ جس میں مزدوروں، غریبوں اور مفلوک الحال افرادِ معاشرہ کے مفادات سے زیادہ سرمایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کو اوّلیت حاصل ہے۔ جس میں دولت کو کمانے کے لئے کسی الہامی نظرئیے کو نہیں بلکہ ملکی و علاقائی قوانین کو ترجیح حاصل ہے، لہٰذا اگر قانون کسی کام کی اِجازت دیتا ہے ،تو اْسے کرنے میں کوئی قباحت نہیں، چاہے اللہ تعالیٰ کے اَحکام کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہورہی ہو۔اگر قانون شراب فروخت کرنے کی اِجازت دیدے ،تو اِس نظام میں اْس کاروبارکو بھی تحفظ حاصل ہوگا۔ سود پر کام کرنے کے لئے باقاعدہ لائسنس جاری کئے جاتے ہیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جب کبھی بھی اِسلام پسند حلقے کی جانب سے اِسلامی نظام کی بات کی گئی ،تودینی سوچ نہ رکھنے والوں نے مختلف حیلے بہانوں کا سہارا لے کر اِس کی بھر پور مخالفت کی، معاملے کو قانونی پیچیدگیوں میں اْلجھاکر اْسے غیر ضروری طور پرطْول دینے کی کوشش کی گئی۔ اِس کی تازہ ترین مثال وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے 28 اپریل 2022ء کو سود کے خلاف دیئے جانے والا فیصلہ ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ حکومت اگلے پانچ سال میں پورے معاشی نظام کو سود سے پاک کرے اور اِسلامی معاشی اْصولوں کی بنیاد پر اِنہیں چلائے۔ یہ فیصلہ نہ صرف قرآن و سنت کے تقاضوں بلکہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 38(ایف) کے مطابق بھی ہے ۔یہ ملک کی اکثریت کی دیرینہ خواہش کی عکاس ہے۔ اِس فیصلے تک پہنچنے میں عوام کو طویل ، انتہائی کٹھن اورصبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ 
چاہئے تو یہ تھا کہ ملک کی ایک آئینی عدالت کی جانب سے صادر اِس شرعی اور آئینی فیصلے کاہرسطح پر خیر مقدم کیا جاتا اور ملک کے اَربابِ اقتدار اور تمام سودی ادارے اِنتہائی ایمانداری اور اِخلاص کے ساتھ اِس پر عمل درآمد شروع کردیتے ، اِس کی عملی نفاذ کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات کو عبور کرتے ہوئے غیر سودی نظامِ معیشت کی جانب اپنے سفر کا آغاز کردیتے ،لیکن افسوس صد افسوس !اِس مرتبہ بھی حسبِ سابق کچھ قانونی موشگافیوں کا سہارا لیکر ملک کے مقتدر ادارے اور چند سودی بینکوں کی جانب سے اِس اہم فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل دائر کر دی گئی اور اِس معاملے کو التواء میں کرنے کی کوشش کی گئی۔ واضح رہے کہ ہمارے ہاں ایک اپیل پر فیصلہ آنے میں کبھی کبھی بیس بیس سال لگ جاتے ہیں۔ اِس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ اپیل کرنے والے اداروں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی بلکہ کچھ قانونی پیچیدگیوں پر وضاحت طلب کی ہے، اگریہ بات درست ہے ،تو پھر چاہئے ،تو یہ تھا کہ وضاحت اْس عدالت سے طلب کی جاتی ،جہاں سے یہ فیصلہ صادر ہوا ہے۔ سپریم کورٹ سے وضاحت طلب کرنا کئی سوالات اْٹھارہا ہے! 
 پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے لے کر ابھی تک ملک کی بیشتر معیشت سودی نظام کے زیرِ اثر ہے۔ ملک اپنے بجٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے سود پر قرض لیتا ہے اور اِسی سودی قرض کا شاخسانہ ہے کہ اب معیشت سنبھالے نہیں سنبھل رہی ہے۔ مہنگائی کا ہوشربا طوفان ملک میں آیا ہوا ہے، بے روزگاری اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے، افراطِ زر کی عفریت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ملک کے لئے اِس سے بڑھ کر تباہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اِس سال پیش کئے گئے بجٹ کا ایک تہائی حصہ تقریبًا تین ہزار چار سو گیارہ ارب روپے سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے۔ اِن تمام حقیقتوں سے آشنا ہونے کے باوجود سودی نظام کی خواہش 
کرنااور اس نظام کو ختم کرنے کے لئے اْٹھائے گئے اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکانا انتہائی نامعقول طرزِ عمل ہے۔ یہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اْس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے، جس میں تباہی ہی تباہی ہے، اِس کے سوا کچھ نہیں۔ 
لہٰذا ملک کے مقتدر مالیاتی ادارے اور دیگر پر یہ لازم ہے کہ وہ فوری طور پر اِس اپیل کو واپس لیں اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو مِن و عَن نافذ کرنے کی جانب پیش قدمی کریں اور اِس دوران آنے والی رْکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے فقہ اِسلامی ، جدید معیشت اور دیگر متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے رہنمائی حاصل کریں۔ کوئی کام مشکل نہیں ہوتا، صرف جذبے، اِخلاص اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِسی ملک میں ایک نجی بینک نے کم و بیش ساڑھے چار سال کے عرصے میں اپنے تمام سودی معاملات کو اِسلامی اْصولوں کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ 75سالہ سودی نظام کے تباہ کن تجربے سے گزرنے کے بعد اب ہر ایک کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کے لئے اِسلامی نطام معیشت ہی کو اپنانا ہوگا وگرنہ مزید معاشی تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
نوٹ: (مضمون نگار نے اپنی ذاتی حیثیت میں یہ مضمون تحریر کیا ہے، کسی ادارے کا اِس سے کوئی تعلق نہیں۔)

مصنف کے بارے میں