شہباز شریف کی ’’ڈبل شفٹ‘‘…

شہباز شریف کی ’’ڈبل شفٹ‘‘…

کالم کا عنوان دیکھ کر آپ کے ذہن میں وہی خیال آیا ہو گا جو اکثر ذہنوں میں آتا ہے یعنی بندہ بعض اوقات کسی کی خواہشیں اور ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ڈبل شفٹ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہی حال ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف کا ہے جو آج کل عمر کے اس حصے میں بھی ڈبل شفٹ لگانے پر مجبور ہیں۔
تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ ایک بیورو کریٹ کے بیٹے کی دعوت ولیمہ میں شرکت کا موقع ملا۔ کئی پرانے افسران سے بھی ملے ایک دوسرے کے سر پر چاندی دیکھ کر احساس ہوا کہ کافی وقت گزر چکا ہے۔ پرانے دوستوں کے ساتھ کچھ نئے چہروں سے بھی شناسائی ہوئی۔ ایک بڑی میز پر اسلام آباد اور لاہور کے کچھ چاند گرہن بالوں والے، کچھ چودھویں کے چاند جیسے سر والے بگے بھی تھے لیکن ایک بات سب میں مشترک تھی کہ عمر رفتہ کی بڑی نشانی یعنی سب کے سر پر قدرتی طور پر ’’کیپہ‘‘ بن گئی تھی۔ چند ایک جوان افسر بھی تھے جن کے سروں پر کاگا کی سیاہی اور آنکھوں میں بجلی کی چمک ابھی تک قائم تھی۔ وہیں کچھ میری پرانی انگریزی اور اردو کی تحریروں اور کالم کی کاٹ کا ذکر ہوا اور مجھے کہا گیا کہ پھر سے انگریزی میں بھی لکھنا شروع کرو۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی بھول بھلیوں کے علاوہ پھر سے سول سیکرٹریٹ جایا کرو جان جاؤ گے کہ بیورو کریسی کتنی پریشان ہے اور لکھنے کو کافی مواد ملے گا اور اگر موقع ملے تو اسلام آباد میں پاکستان سیکرٹریٹ کا بھی چکر لگا لینا۔ میں نے عرض کیا کہ نیب کو تو بند کر دیا گیا ہے اب کیسی پریشانی اس پر ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ نے کہا جا کر تو دیکھو اور بھی غم ہیں زمانے میں ’’نیب‘‘ کے سوا۔ طے ہوا کہ یہ گفتگو مکمل آف دی ریکارڈ ہو گی۔ ایک تو گرمی پھر سستی آڑے آئی لیکن پھر ایک دو دوستوں کے فون آئے اور ہم چل دیے۔ عمران خان کے دور میں بھی متعدد بار سیکرٹریٹ جا چکا تھا لیکن اس وقت ہر چہرے پر یاسیت اور ویرانی سی جھلکتی تھی۔ دھول پڑے فائلوں کے انبار تھے۔ استفسار پر بتایا گیا تھا کہ کمزور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور نیب کے خوف سے کوئی افسر بھی کسی فائل کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھا۔ لیکن جب گزشتہ ہفتے میں سیکرٹریٹ گیا تو دیوالی کا سا سماں تھا۔ پتہ چلا کہ متحدہ حکومت آنے سے فائلوں کو پہیے لگ گئے ہیں اس سے پہلے کہ آپ غلط فہمی کا شکار ہوں یہ پہیے ملک ریاض والے نہیں بلکہ حقیقت میں کام شروع ہو گیا تھا۔ سب سے زیادہ رونق پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ میں تھی پھر سی اینڈ ڈبلیو اور دوسرے کماؤ پوتوں میں تھی۔ لگ بھگ دو درجن بابوؤں سے ملاقات ہوئی سب کا اتفاق تھا کہ حمزہ شہاز تو شہباز شریف کا پرتو بھی نہیں ہے اور انتظامی لحاظ سے عثمان بزدار سے بھی کمزور وزیر اعلیٰ ہے کیونکہ انہیں ہر فیصلے کے لیے ’’ابا جی‘‘ کی طرف دیکھنا ہوتا ہے۔ پھر ایک بابو گویا ہوا کہ اگر پنجاب پر وزیر اعظم شہباز شریف کا سایہ نہ ہو تو صوبہ بالکل شتر بے مہار ہو جائے۔ یہ سب جانتے تھے کہ ہمیشہ کی طرح پنجاب ہی سیاسی میدان 
جنگ بنے گا اس لیے وزیر اعظم کی فکر دو چند ہے۔ ایک کا خیال تھا کہ حمزہ شہباز کیونکہ نا تجربہ کار ہیں اور ان کی ٹیم نے بھی ہمیشہ شہباز شریف کے دباؤ میں ہمہ گیر قیادت کے زیر سایہ کام کیا ہے اس لیے ان کی ٹیم کی حالت بوہڑ کے درخت کے نیچے لگے پودوں جیسی تھی جو کہ اس کے سایہ کی وجہ سے پنپ ہی نہ سکے۔ ایک بابو گویا ہوئے کہ دیکھا جائے تو وزیر اعظم شہباز شریف پنجاب میں کمزور حکومت کی وجہ سے ’’ڈبل شفٹ‘‘ لگا رہے ہیں جس سے ان کا مرکز کا کام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا کیا مطلب ہے وہ مداخلت کر رہے ہیں تو شدت سے بولے، نہیں معاملات درست کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کیا پنجاب میں معاملات اس قدر خراب ہیں وضاحت دینے لگے کہ حمزہ نیا ہے سیکھ جائے گا اور پھر شہباز شریف والد بھی ہیں اس لیے زیادہ فکر مند ہیں۔ جب پوچھا کہ تقرر و تبادلے کون کراتا ہے تو سب نے چپ سادھ لی البتہ ایک کاگے بالوں والے گویا ہوئے کہ ’’ٹیم‘‘ بڑے صاحب کی ہی ہے۔ جب میں نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا پوچھا تو ایک سفید پوش سر والے بولے کہ ’’دس تیرا اے سوال بن دا اے‘‘؟ ایک اور نے ہاتھوں کے اشاروں سے بتایا کہ فائل بند ہو گئی ہے۔ بابوؤں نے بتایا کہ ترقیاتی کاموں کا سارا زور سنٹرل اور شمالی پنجاب کے 90 کے قریب حلقوں پر ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے 20 حلقے بھی توجہ حاصل کر سکے ہیں۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انتخابی حکمت عملی کیا ہو گی۔
بابوؤں کا گلہ تھا کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان بھی سیاسی طور پر اتنے موثر نہیں ایک اور نے لقمہ دیا کہ اگر چودھری سرور کی طرح متحرک ہوتے پنجاب میں حکومتی ایوانوں میں بھی تماشا لگا ہوتا۔ ان کا یہ بھی شکوہ تھا کہ مرکز اور صوبے میں طاقتور وزرا اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف اپنے ہی حلقوں کی فائلوں کو پہیے لگا رہے ہیں جس سے پنجاب میں مسلم لیگی اور پیپلز پارٹی کے لوگ بہت جز بز ہیں۔ پی پی کو تو حکومت کا تجربہ نہیں دوسرے ان کا سارا زور من پسند ٹھیکیداروں کو پراجیکٹ دلوانے دفتر کی تزین و آرائش اور تقرر و تبادلوں یا گاڑیوں پر ہے۔ ایک بابو کہ کہنا تھا کہ جہاں بھی کوئی بڑی اڑچن آ جائے تو ہم یہ کہہ کر معاملہ ٹال دیتے ہیں کہ اس پر وزیراعظم صاحب کی رائے لینا ضروری ہے جس پر مسلم لیگ ن سمیت سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز مداخلت کرتے ہیں تو سب نے کہا کہ ہمیں ’’شہباز شریف ‘‘ صاحب نے مکمل فری ہینڈ دیا ہے۔۔ سب سے بڑا لطیفہ جو انہوں نے سنایا وہ فیصل آباد کے لوٹے راجہ ریاض کا ہے کہ وہ پاکستان سیکرٹریٹ اور سول سیکرٹریٹ پنجاب میں فون پر یا بالمشافہ اپنا تعارف کراتے ہیں کہ ہوں تو میں اپوزیشن لیڈر لیکن اگلا الیکشن میں ن لیگ سے لڑ رہا ہوں۔ اس لیے مجھے ’’بچے‘‘ نہ دینا۔ (بچے دینے کا مطلب ہے کسی کام کو ٹالنا)۔
اقتدار کے ایوانوں میں ایک اور کھلبلی مچی ہے اب سنا ہے نواز شریف صاحب مفتاع اسماعیل کی کارکردگی سے خوش نہیں ہیں یا ان سے جو کام لینا تھا لے لیا اس لیے اب اسحاق ڈار کو لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے نزدیک ڈار صاحب کو لانے کا مطلب ہے کہ نواز شریف صاحب چھوٹے میاں سے بھی خوش نہیں۔ ڈار صاحب اپنے دور اقتدار میں لگ بھگ تین درجن سے زائد کمیٹیوں کے سربراہ تھے۔ وہ یقیناً مداخلت کے بغیر اپنے ویژن سے اپنی وزارت کو چلانے والے وزیر سمجھے جاتے ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف بھی اہم معاملات پر سولو فلائٹ لینے کے عادی ہیں۔
اب دیکھنا ہے کہ ڈار صاحب کے آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی اندرونی کشمکش کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ جبکہ ایک جہاندیدہ لیگی کا کہنا تھا کہ مفتاح اسماعیل سیاسی آدمی نہیں دوسرے اس کے لیے سیاسی زمین بھی سکڑ رہی ہے کیونکہ 6 ماہ بعد وزیر رہنے کے لیے انہیں پارلیمنٹ کا حصہ بننا ہو گا جس کے لیے وقت تھوڑا اور حالات بھی نامواقف ہیں۔
لیکن بابوؤں کا خیال تھا کہ وزیر اعظم کی ’’ڈبل شفٹ‘‘ والی پالیسی بھی کام نہیں کر رہی کیونکہ پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور اسے ’’شہباز ویژن‘‘ والا وزیر اعلیٰ چاہیے۔ جبکہ کمزور ٹیم کے علاوہ بھی پنجاب بے یقینی کا شکار ہے۔ البتہ یہ مانتے ہیں کہ ’’ڈبل شفٹ‘‘ نے کام قدرے سنبھالا ہوا ہے ورنہ جوتیوں میں دال بٹتی۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔

مصنف کے بارے میں