پیپلز پارٹی اور پنجاب

پیپلز پارٹی اور پنجاب

 ذوالفقار علی بھٹو نے جب پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو سب سے زیادہ پذیرائی انہیں پنجاب سے ملی،اگر چہ روایتی جاگیر دا رگھرانوں نے ان کو تسلیم نہ کیا،تاہم بھٹو بائیں بازو کے سرخ پوشوں کو ایک پلیٹ فارم دینے میں کامیاب ہو گئے جس کے بعد سندھ کے قوم پرست اور سرخ انقلاب کے داعی بھی ان کے ہم قدم ہو گئے،بتدریج پنجابی جاگیر داربھی پیپلز پارٹی کی طرف راغب ہونے لگے،لہٰذا مختصر وقت میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کی بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی،لیکن صوبہ سرحد(کے پی کے)میںولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اور فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود نے مل کر حکومت بنائی جسے بھٹو نے کچھ عرصہ بعد ہی تحلیل کر دیا،بلوچستان میں بلوچ اور پختون قوم پرستوں نے مل کے حکومت بنائی،یہ دونوں حکومتیں بھی جے یوآئی کو چھوڑ کر بائیں بازو سے ہی تعلق رکھتے تھے،پنجاب کی حمایت نے بھٹو کو مرکز ،پنجاب اور سندھ میں حکومت بنانے کا موقع دیا،جس کے بعد سرحد(کے پی کے) اور بلوچستان میں انہوں نے خود ہی راستے بنا کر حکومت بنا لی،1977میں بھٹو کا تختہ الٹنے کے بعد تمام ریاستی طاقت پیپلز پارٹی کو ختم کرنے پر لگا دی گئی مگر پیپلز پارٹی وفاق کی زنجیر ثابت ہوئی اور چاروں صوبوں میں اپنا وجود برقرار رکھا،تاہم بینظیر بعد میں دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں مگر پنجاب میں ایک بار حکومت ن لیگ نے بنائی جبکہ دوسر ی بار بھی اقتدار میں حصہ تو لے سکیں مگر وزیر اعلیٰ جونیجو لیگ کا بنا ،تب سے اب تک پیپلز پارٹی پنجاب میں مرکزی جگہ نہیں بنا سکی،بینظیر کی شہادت کے بعد آصف زرداری نے وفاق اور سندھ ،بلوچستان میں حکومت بنائی مگر پنجاب میں حکومت سازی نہ کر سکے۔
قصہ کوتاہ آج پیپلز پارٹی پنجاب میں سات صوبائی نشستوں کیساتھ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد میں وہ اقتدار کا حصہ بھی ہیں۔ پنجاب میں مقبولیت کیلئے آصف زرداری نے متواتر کوششیں بھی کر رہے ہیں ،بلاول بھٹو کے پارٹی کی سربراہی سنبھالنے کے بعد آصف زرداری اپنے اور بلاول اپنے طور پر ان کوششوں میں تیزی لائے،بلاول بھٹو نے عمران خان دور میں کراچی سے اسلام آباد تک تنہا لانگ مارچ کیا،اس دوران ساہیوال اور لاہور اور د یگر مقامات میں ان کا تاریخی استقبال ہوئے،پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے والے ندیم افضل چن نے اس دوران ان سے ملاقات کر کے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی، جو ایک بڑی کامیابی تھی ،چن بڑے ووکل اور محنتی سیاستدان ہیں، نوابزادہ مظہر علی خان جو بھٹو کے قریبی ساتھی تھے مگرراستے الگ کر کے ن لیگ سے جا ملے تھے ، لانگ مارچ کے دوران انہوں نے بلاول سے گجرات میں ملاقات کی،زرداری اور بلاول نے لاہور کو ہدف بنا کر کئی کئی روز یہاں قیام کر کے روٹھے رہنمائوں کو منانے اور الیکٹ ایبلز کو پارٹی میں لانے کی کامیاب کوشش کی،حالیہ سیاسی بحران میں ن لیگ کے مؤقف کے برعکس مؤقف اپنا کر عثمان بزدار کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرا کے زرداری نے خود کو کامیاب سیاستدان منوایا،ورنہ ن لیگ فوری الیکشن کرانے کی حامی تھی مگر زرداری نے باقی ماندہ اسمبلی کی مدت پوری کرنے کیلئے نواز شریف کو منایا،ورنہ فوری الیکشن کی صورت میں عمران خان ہمدردی کا ووٹ لے کرکامیاب ہو جاتے۔
 بلاول کے لانگ مارچ نے بھی ثابت کیا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بکھرا ہوا ہی ہے مگر ابھی اس کا وجود برقرار ہے،اب آصف زرداری نے پارٹی بلاول کے سپرد کر کے خود کو ناراض پرانے ساتھیوں کو راضی کرنے کیلئے وقف کر دیا ہے،اس میں ان کو خاصی پذیرائی بھی مل رہی ہے،پرانے بہت سے ساتھیوں کو وہ واپس پارٹی میں لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہو رہے ہیں،سندھ میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کی واضح برتری آصف زرداری کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے،زرداری کے پی کے میں بھی پارٹی کی تنظیم نو کی کوشش میں مصروف ہیں،بلوچستان پر بھی ان کی گہری نظر ہے،عمران خان کیخلاف حالیہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے میں بھی زرداری کا خاصا کردار ہے،پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو سندھ ہائوس میں مہمان بنا کر رکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ منحرفین نے زرداری کی بات کو اہمیت دی،بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں او ایم کیو ایم کو عدم اعتماد تحریک میں پی ڈی ایم کا ساتھ دینے کیلئے بھی انہوں نے منایا،نیا سیاسی منظر جو اگر چہ دھند میں لپٹا ہے مگر لگ رہا ہے کہ آصف زرداری اپنی جادوگری کے زور پرآئندہ الیکشن میں کوئی کارنامہ انجام دینے والے ہیں۔
آئندہ ماہ ہونے والے ضمنی الیکشن بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے پیپلز پارٹی نے اپنے تمام امیدواروں کو لیگی امیدواروں کے حق میںبٹھا دیا ہے،1977سے چلنے والی چپقلش کے بعد دونوں پارٹیوں کا ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا ناقابل یقین بات ہے مگر یہ بھی زرداری کی جیت ہے کہ انہوں نے دہائیوں کی سیاسی دشمنی کو دوستی میں بدل دیا،موجودہ حالات میں وہ جس قدر قربانیاں دے سکتے ہیں دے رہے ہیں ،زرداری ہی کی طلسماتی شخصیت کا کرشمہ ہے کہ تحریک انصاف پنجاب کے بعد وفاق بدر ہونے پر بھی مجبور ہو گئی ہے،اگر چہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے تشویش ظاہر کرتے ہوئے راستے الگ کرنے کی ڈھکی چھپی دھمکی دی ہے مگر زرداری سے صرف ایک ملاقات کے بعد تمام شکوے ماضی کی طرح دور ہو جائیں گے،بلوچ قوم پرستوں کی ناراضی بھی زرداری کی ایک ملاقات کے بعد ماضی کا قصہ بن جائیگی،تا ہم پنجاب میں پیپلز پارٹی کو قدم جمانے کیلئے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے،زرداری نے پارٹی بلاول کے حوالے کر کے بھی سیاسی بازی کھیلی،کارکن بھٹو خاندان کے کسی فرد کو پارٹی سربراہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے جس کے بعد زرداری نے یہ فیصلہ کیا جو کامیاب بھی رہا،بلاول نے پنجاب میں قدم جمانے کیلئے بہت محنت کی زرداری کی مشاورت سے انہوں نے بہت سے انقلابی اقدامات کئے،اب ان کے نتائج حاصل کرنے کا وقت ہے اور امید کی جارہی ہے کہ آئندہ الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی پنجاب میں مضبوط قدم جمانے میں کامیاب ہو جائیگی۔
 پنجاب میں ن لیگ کے بعد تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی قابل ذکر ہے،ان دونوں پارٹیوں کی موجودگی میں پیپلز پارٹی کیلئے جگہ بنانا آسان نہیں لیکن اب بھی بھٹو اور بینظیر کے چاہنے والے کافی تعداد میں ہیں، پچھلے ایک ضمنی الیکشن میں لاہور سے چودھری اسلم گل کے بڑی تعداد میں ووٹ اس کا ثبوت ہے ، قمر الزمان کائرہ ،چودھری منظور ،رانا فاروق جیسے رہنماؤں نے پارٹی کے لئے بڑی محنت کی ہے۔بائیں بازو والے منتشر ہیں ان کو کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے اور یہ کمی پیپلز پارٹی کی قیادت ہی پوری کر سکتی ہے،اس کیلئے ضروری ہے پیپلز پارٹی ترقی پسندوں سے رابطے بڑھائے،ان کو متحد کرنے کی کوشش بروئے کار لائے،اس کیساتھ پارٹی کے ناراض رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی راضی کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں،سابق وزیر اعلیٰ میاں منظور وٹو جوڑ توڑ اور ساتھیوں کو اکٹھا کرنے کے ماہر ہیں ،وہ کسی پارٹی میں بھی نہیں ،فیصل آباد والے رانا آفتاب پنجاب پیپلز پارٹی کے صدر رہے ہیں ،اسی طرح جو اور راہنما پارٹی چھوڑ گئے تھے ان سے رابطے کیے جائیں تو پنجاب میں پارٹی کی واپسی ہو سکتی ہے۔

مصنف کے بارے میں