ترقی یافتہ سماج اور پومپیائی کا عبرت کدہ

ترقی یافتہ سماج اور پومپیائی کا عبرت کدہ

اسے پانی کی تلاش تھی جس کی خاطر وہ کنواں کھود رہا تھا۔ بہت نیچے تک کھدائی کرنے کے باوجود اسے پانی نہ ملا۔ اسے پانی کیسے ملتا؟ وہاں کا پانی تو مر چکا تھا۔ پانی مر جانے کے بعد بستی والے کیسے زندہ رہ سکتے تھے؟ وہ بھی مر گئے۔ یوں کہ صدیوں تک بیرونی دنیا کو ان کے مرنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ پانی کی تلاش میں زمین کھودنے والا کسان کسی اور ہی دنیا تک پہنچ گیا۔ اسے یہاں کنواں تو نہ مل سکا البتہ اس کی تلاش کے نتیجے میں ماہرین ارضیات ایک شہر مدفون تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ شہر سیکڑوں برس پہلے پومپیائی کے نام سے جانا جاتاتھا ۷۹ء میں گرمیوں کی ایک صبح قیامت کا پیغام لائی اور قریبی پہاڑ ویسویس سے نکلنے والے لاوے نے شہرکا شہر فنا کر دیا۔ آبادی، چٹانوں اور راکھ کے ہزاروں ٹن ملبے کے نیچے دب کر رہ گئی۔ قریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے تھے جب پانی تلاش کرتے کسان کے پھاوڑے اس کے در و دیوار سے ٹکرائے اور اس دریافت پر تین صدیاں پوری ہونے کو تھیں جب مجھے نیپلز کے نوجوانوں نے پومپیائی جانے کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کو ایک ایسا شہر دکھائیں گے جو زمین کے اندر دھنسا ہوا ہے، صدیاں بیت جانے کے بعد بھی جہاں کے لوگوں کی زندگی اور ان کے طرز زندگی کو دیکھا جا سکتا ہے جسے آتش فشاں نے جلا کر راکھ کر دیا ہے۔
میری طبیعت اچھی نہ تھی، نیپلز یونی ورسٹی میں بھی جو دن میں نے گزارا بخارکی کیفیت سے بھرا ہوا تھا لیکن اردو کے اس قدیم مرکز کو دیکھنے کی خواہش، بخار پر غالب رہی اور میں دلجمعی کے ساتھ نیپلز کے اس قدیم ترین اردو مرکز کی سیر کر سکا یہاں کا کتب خانہ دیکھ سکا اور یہاں کے متعلقہ لوگوں سے خطاب کر سکا۔ ایک زائر کی حیثیت سے تو میرے اندر پومپیائی کو دیکھنے کی خواہش بھی تھی لیکن اس شہر کے بارے میں تفصیلات جاننے سے طبیعت کی ناسازی، افسردگی میں بدل گئی۔ میں، شام کے جنوب اور عراق و فلسطین کے درمیان موجود بحر میت یا بحر مردار دیکھ چکا تھا، جہاں کبھی شہر سدوم واقع تھا۔ شہر سدوم، بائبل کے مطابق ان کا سب سے بڑا شہر تھا، جسے قدرت نے زمین سے اٹھا کر الٹا دیا اور اس بالائی سطح کو زیریں اور زیریں سطح کو بالائی بنا کر رکھ دیا۔ جہاں کے لوگوں کی بد کرداری ان پر پتھر بن کر برسی یوں کہ ہر پتھر اس شخص کے لیے نشان زد تھا جس کی زندگی کا، اسے خاتمہ کرنا تھا۔ یہیں پر وہ لامبا پتھر، پہاڑ کی بلندی پر ایستادہ ہے، روایت کے مطابق جو کبھی پیمبر کی بیوی تھی لیکن پیچھے رہ جانے والوں میں ہو گئی، کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِیْنَ۔ پورا شہر بحرمیت کی تہ میں غرقاب ہے اور اسی باعث پانی کی کثافت اضافی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس میں کوئی شے ڈوبتی نہیں۔ معلوم نہیں اس کا سبب کثافت اضافی ہے یا سدوم والوں کی کثافت کردار لیکن زائرین ہیں کہ یہاں سے عبرت کی ایک چھٹانک لیتے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ کنارے پر اور خود بحرمردار کے اندر عیاشی، عریانی اور غفلت کے مظاہر کی فراوانی ہے۔ سمندر کی جانب جانے سے پہلے بحر میت کی مصنوعات کے سٹور ہیں جہاں بحرمیت سے نکلنے والی معدنیات سے بنائے گئے شیمپو، پاؤڈر، کریمیں، صابن اور آرائش و زیبائش کے دوسرے سامان فروخت ہو رہے ہیں۔ بحرمیت کا نمک فروخت کیا جا رہاہے، جسے آپ اپنے باتھ ٹب میں ڈال کر اسی طرح پانی کی سطح پر تیر سکتے ہیں جیسے بحرمیت میں تیرنے والے تیرتے ہیں۔ سطح پر تیرنے کو لوگ کمال سمجھتے ہیں اور ایساسمجھنے والے تمام عمر سطح پر ہی تیرتے رہتے ہیں۔ یہ ’’تیراک‘‘ نہیں جانتے کہ سطح پر تیرنے کی یہ کیفیت انسان کا کتنا نقصان کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تہ تک نہیں پہنچ سکتا… جی ہاں وہی تہ جہاں موتی ہیں… قعر دریا سلسبیل وروی دریا آتش است…
پومپیائی جانے کی دعوت نے بحرمیت کی یاد تازہ کر دی، پومپیائی جانے والے بھی بحرمیت کی طرح اسے ایک سیرگاہ سمجھتے ہیں۔ جنوبی اٹلی کے جس پہاڑ سے نکلنے والے لاوے نے اس شہر کو دفن کیا اس کا نام ویسویس  Mount Vesuvius ہے۔ اس نام کا مطلب ہی سوراخ دار پہاڑ ی چوٹی ہے، جس سے نکلنے والے لاوے نے اس شہرکے بیس ہزار سے زائد فرزندوں کو دیکھتے ہی دیکھتے ہلاک کر ڈالا۔ جن لوگوں نے جان بچانے کیلئے سمندر کا رخ کیا وہ بھی اس عذاب سے نہ بچ سکے۔ ویسویس پہاڑ کی چوٹی سے نکلنے والے لاوے میں وہ کیمیکل تھا جس نے مرنے والوں کے جسم پر لپٹ کر انھیں متحجر کر ڈالا اور موت کے ہاتھوں نے جسے جس حال میں دبوچا تھا وہ اسی طرح محفوظ ہو گیا۔ پومپیائی کے عبرت کدے اور اٹلی کی آثاریاتی تحقیق کے مراکز میں ان کی یہ پتھرائی ہوئی لاشیں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
پومپیائی Pompey  (۱۰۶ ق۔م …۴۸ق۔م) دراصل رومی سلطنت کے ایک بڑے جرنیل کا نام تھا۔ جب پومپیائی سپین فتح کر چکا تو قیصر کو اندیشہ ہوا کہ اب وہ کہیں روم کو بھی فتح نہ کر لے، قیصر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی فکر میں تھا۔ اس نے پومپیائی کی جانب سے ممکنہ خطرے کو ٹالنے کے لیے بروایت اپنی خوبرو بیٹی Julia کو اس کے شوہر سے چھین کر پومپیائی کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ اس کی توجہ کا مرکز بن کر اسے مرکز سلطنت تک پہنچنے سے باز رکھے۔ اس طرح وقت کی دونو بڑی طاقتوں کا سیاسی اتحاد مضبوط ہو گیا ’’وہ خاتون پاک دامن ہونے کے ساتھ ساتھ حاملہ بھی نکلی اور پومپیائی کی محنت، توجہ اور وقت کا نقصان ہوا۔ خاتون مر گئی یا مار دی گئی لیکن پومپیائی کو روم پہنچنے میں مطلوبہ تاخیر ہو گئی__ اور یہ مشتے از خروارے ہے‘‘ (تماشامرے آگے ص ۱۵۲) اور انسائیکلو پیڈیا بریٹینیکا کے مطابق  
The death of Julia destroyed the strongest bond between Pompey and Caesar,
اسی پومپیائی کے نام سے منسوب یہ بستی دنیا کا کوئی اکلوتا عبرت کدہ نہیں بلکہ قرآنی بیان کے مطابق وکَم مِّن قَرْیَۃٍ أَہْلَکْنَاہَا (کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر ڈالا، ۷:۴) یہ عذاب بعض قوموں پر رات کے وقت نازل ہوا اور بعض پر دوپہر کو، جب وہ آرام کر رہے تھے۔ کچھ ایسے تھے جن پر پتھروں والی ہوا ِ فَمِنْہُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَیْْہِ حَاصِباً اور کچھ ایسے تھے جن پرکڑک نازل ہوئی  وَمِنْہُم مَّنْ أَخَذَتْہُ الصَّیْحۃ اورکچھ ایسے تھے جنھیں زمین میں دھنسا دیا گیا وَمِنْہُم مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْأَرْضَ اورکچھ ایسے تھے جنھیں غرق کر دیاگیا  وَمِنْہُم مَّنْ أَغْرَقْنَا۔(۲۹:۴۰) پومپیائی والے اس روز میلے ٹھیلے میں مصروف تھے۔ یوں وہ بڑے ترقی یافتہ تھے، ان کا فن تعمیر ان کا طرز معاشرت 
ان کی تجارت و معیشت سب ان کے سیانے ہونے کا پتا دیتے ہیں۔ قرآنی الفاظ مستعار لیے جائیں تو وہ بڑے ہوشیار وَکَانُوا مُسْتَبْصِرِیْنَ تھے لیکن ان کی تفریحی سرگرمیاں ایسی بیہودہ تھیں کہ الامان و الحفیظ۔
اردو کے ممتاز ناول نگار ڈاکٹر حسن منظر صاحب نے پومپیائی کا دورہ کیا تو انہیں نہایت قیمتی آئل کلرز میں بنائی ہوئی ایک تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کمرے میں یہ تصویر آویزاں تھی وہاں پہنچنے پر گائیڈ نے عورتوں اور لڑکیوں کو باہر رکنے کیلئے کہا، اندر دیواریں سپاٹ تھیں اور دروازے سے ملحق دیوار پر لکڑی کا ایک بڑا بھورا چپٹا بکس آویزاں تھا، پہرے دار نے سب کو خاموش کراتے ہوئے اس تصویر کی قیمت لیرا، ڈالر، پاؤنڈ اور فرانک میں بتائی اور تصویر کا پٹ کھول دیا۔ تصویر کا حال سنانے کی ہم میں تو ہمت نہیں، ڈاکٹر صاحب کا بیان دیکھ لیجیے: ’’ایک ترازو ہے جس کے ایک پلڑے میں سونا ہے اور دوسرا پلڑا جو بوجھ سے جھکا ہوا ہے اس میں نزدیک کھڑے ہوئے برہنہ مرد نے اپنے جسم کا وہ حصہ رکھا ہوا ہے جس کا کام قدرت کی طرف سے کچھ اور تھا اور جسے عیاش ذہنوں نے دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دے رکھی ہے۔ بیت الخلا کی دیواروں کی تصاویر کی طرح اس آئل پینٹنگ میں بھی مصور نے جسمانی ساخت کے اظہار سے آزادی برتی تھی…‘‘ (موجودہ معاشرہ اور برہنہ فلمیںص ۱۵) اس ایک تصویر پر کیا موقوف اس بستی والوں کے ذوق بلکہ بد ذوقی کے مظاہر تو اس بستی کے آثار اور کھنڈرات میں جابجا موجود ہیں دیواروں کی نقاشی ہی نہیں متحجر ہو جانے والوں کے وجود بھی ان کے کردار و اعمال کا اظہار کر رہے ہیں۔

مصنف کے بارے میں