مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں منصف کو انصاف کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے: خواجہ آصف 

مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں منصف کو انصاف کی کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہیے: خواجہ آصف 
سورس: file

اسلام آباد (جانب منزل نیوز) وزیردفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ مفادات کے ٹکراؤ کی صورت میں منصف کوانصاف کی کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہیے۔ چاہتے ہیں پارلیمان اورسپریم کورٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوں، آئین کے تحت کوئی ادارہ کسی دوسرے آئینی اداے کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتا۔ پارلیمان کے معاملات میں مداخلت ہو تواس پارلیمان کو بھی اپنا کرداراداکرنا چاہئے۔

منگل کوقومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے خواجہ محمد آصف نے کہا کہ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھائیں جو قانون کے مطابق ہو تو اسے بھی مسترد کردیا جاتاہے۔ مفادات کا ٹکراؤ ایک اہم نکتہ ہے اگر ایسا معاملہ ہو تواصول ہے کہ منصف کو منصفی کی کرسی پرنہیں بیٹھنا چاہئے۔

کابینہ نے ایک کمیشن بنایا جس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین اوردو ہائیکورٹس کے چیف جسٹس شامل تھے، چیف جسٹس نے اسے کام سے روک دیا۔چیف جسٹس کو اس لئے شامل نہیں کیاگیا کیونکہ آڈیوٹیپس میں ان کی خوش دامن شامل تھیں اس لئے انصاف کے اصولوں کے مطابق چیف جسٹس کوشامل نہیں کیاگیا، ایک تاثرپایا جاتاہے کہ آڈیو ٹیپس یا لیکس شائد فون کے ساتھ ڈیوائس لگا کے سنی جاتی ہیں، آپ برطانیہ میں بیٹھ کرپاکستان میں فون ہیک کرسکتے ہیں، اس وقت بین الاقوامی ہیکرز فعال ہیں۔

انہوں نے کہاکہ میری اطلاع ہے کہ ثاقب نثار صاحب کے بیٹے نے کمیٹی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دی ہے، یا تو وہ آڈیو ٹیپس سے انکارکردیں۔آج سے کچھ سال پہلے ایک کیس تھا جس میں اس وقت کے چیف جسٹس کے بیٹے کا ملک ریاض کے ساتھ کیس تھا، اس وقت چیف جسٹس خودنہیں بیٹھے، یہ روایات اب ترک کردی گئی ہیں، اگر اس وقت کے چیف جسٹس نے اپنے آپ کو علیحدہ کیا تھا تو موجودہ چیف جسٹس کو بھی اپنے آپ کوعلیحدہ کرنا چاہئے تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس میں چیف جسٹس کے اختیارات کو وسعت دی گئی مگر اس کا بھی نوٹس لیاگیا، ہم چاہتے تھے کہ ایسا طریقہ کاروضع کیا جائے جس سے ون مین شو کا تاثرختم ہو، ہماری تجویز تھی کہ عدالت عظمیٰ میں اختیارات اور انصاف کی فراہمی میں شفافیت لائی جائے۔

ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان اورسپریم کورٹ کے درمیان اختلافات نہ ہوں، آئین کے تحت کوئی ادارہ کوئی دوسرے اداے کوڈکٹیٹ نہیں کرسکتا، آئین نے پارلیمان کی کوکھ سے جنم لیاہے، ہمیں کہاجارہاہے کہ ہمیں ڈکٹیٹ نہ کیا جائے مگراس کا اطلاق سپریم کورٹ پربھی ہوتاہے۔یہ پاکستان کے آئینی سیٹ اپ کیلئے خطرناک ہے۔ اسلام آباد میں جس شخص نے درخواست دی ہے وہ خود آڈیوٹیپ میں ملوث ہے۔

مصنف کے بارے میں