جے آئی ٹی تحقیقات، عمران خان  ذاتی طور پر پیش ہوں گے یا ویڈیو لنک سے ؟، پی ٹی آئی چیئرمین نے  کیا  پیشکش کی؟

جے آئی ٹی تحقیقات، عمران خان  ذاتی طور پر پیش ہوں گے یا ویڈیو لنک سے ؟، پی ٹی آئی چیئرمین نے  کیا  پیشکش کی؟

لاہور:جے آئی ٹی تحقیقات کے لئے عمران خان ذاتی طور پر پیش ہوں گے یا ویڈیو لنک سے ، پی ٹی آئی رہنمانے کیا پیشکش کی ۔جناح ہاؤس  پر  حملے کی تحقیقات کیلئے بنائی گئی جے آئی ٹی میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی بجائے ان کے نامزد کرہ نمائندگان پیش ہو ئے۔

عمران خان کو آج جے آئی ٹی میں طلب کیاگیا تھا ،عمران خان کی   طرف سے جے آئی ٹی کی تحقیقات میں شمولیت کیلئے باضابطہ تحریری بیان جمع کروایا گیا۔ عمران خان کے مقرر کردہ نمائندے علی اعجاز بٹر، نعیم حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ نے تحریری بیان جے آئی ٹی میں جمع کروایا۔

عمران خان نے اپنے جواب میں کہا جے آئی ٹی نے 10 مئی کو درج کیے گئے مقدمے کی تحقیقات میں شمولیت کا نوٹس بھجوایا، نوٹس کل موصول ہوا جس کے جواب کیلئے مہلت نہایت محدود تھی، پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مطابق مجھے آج انسداد دہشت گردی کی عدالت اور ہائی کورٹ میں پیش ہونا تھا، اس معاملے پر لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت پہلے ہی ضمانت دے چکی ہے۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف  عمران خان  نے کہامجھے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر رہا کیا گیا۔ اپنے خلاف بڑی تعداد میں جھوٹے مقدمات کے اندراج کے باوجود تحقیقاتی اداروں سے مکمل تعاون کر رہا ہوں، میرے خلاف مقدمات جھوٹے اور غلط ہیں جن کی وجوہات سراسر سیاسی ہیں، اپنے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باوجود میں اس مقدمے کی تحقیقات کا حصہ بننے کیلئے تیار ہوں۔

انہوں نے جواب میں کہا کہ میں پاکستان کے 22 ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہوں، وزیر آباد میں ایک نہایت خطرناک قاتلانہ حملے کا نشانہ بن چکا ہوں۔ اپنی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود عدالتوں میں پیشی ناگزیر ہے، خطرات اور سکیورٹی کے انتظامات پر اٹھنے والے نجی سرکاری اخراجات کے پیش نظر زمان پارک سے تحقیقات میں شمولیت قابل تحسین ہو گی۔

 ویڈیو لنک یا سوالنامے کے ذریعے تحقیقات میں شمولیت کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے ۔ خطرات کی موجودگی میں غیر ضروری نقل و حرکت کی بجائے سوال نامے یا زمان پارک سے بذریعہ ویڈیو لنک تحقیقات میں شمولیت مناسب رہے گی۔ جے آئی ٹی کی جانب سے نمائندوں کے ذریعے عمران خان کا تحریری جواب قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا ہے۔

مصنف کے بارے میں