وزیر اعظم کی تقاریر اور جواب میں تضاد نظر آ رہا ہے: عدالت عظمیٰ

وزیر اعظم کی تقاریر اور جواب میں تضاد نظر آ رہا ہے: عدالت عظمیٰ

اسلام آباد: وزیراعظم کے بیان اور تقاریر میں تضاد ہے! سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا؟ جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی۔  جسٹس اعجازالاحسن نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیے ہیں۔

پاناما لیکس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ کی ۔ سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ حامد خان بہت سینئر وکیل ہیں اور انہوں نے قانون پر کتاب بھی لکھ رکھی ہے لہذا میڈیا کو ان کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔

سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ پاناما لیکس کیس میں وزیراعطم نواز شریف کی جانب سے جمع کرائے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تصاد ہے۔

عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیر اعظم نے غلط بیانی کی اور ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے، وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اور قوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جب کہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبر ہی نہیں ہے، مریم نواز وزیر اعظم کی زیر کفالت ہیں اور لندن فلیٹس کی بینیفیشل آنر ہیں، وزیر اعظم کو یہ بات گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھی جب کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے بالکل مختلف ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہے، نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگا رہا جس پر نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیا، جس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔

نعیم بخاری نے موقف اختیار کہا کہ وزیر اعظم نے اپریل 1980 میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنے کا بتایا، یہ رقم کل ملا کر 90 کروڑ ڈالر بنتی ہے، دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی وزیراعظم نے اپنے بیان میں نہیں بتایا جب کہ دبئی حکومت کے خط پر کوئی دستخط بھی نہیں ہیں، شیئرز کی فروخت کا معاملہ وزیراعظم کی ذہنی اختراع ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم نے جدہ فیکٹری کے لئے بینکوں سے قرضہ لینے کا ذکر کیا، جدہ فیکٹری جون 2004 میں ایک کروڑ 70 لاکھ ڈالر ڈالر میں فروخت کرنے کا کہا گیا جب کہ لندن فلیٹس 1993 سے 1996 کے درمیان خریدے گئے  جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ دبئی اسٹیل مل کی طرح جدہ اسٹیل مل کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا جب کہ جسٹس اعجازالحسن نے استفسار کیا کہ سعودی بینکوں سے قرضہ کیسے لیا؟

 جدہ فیکٹری کتنے میں اور کیسے فروخت کی گئی۔ عدالت میں پیش کئے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے، دونوں مواقع پر کی گئی تقاریر میں بھی تضاد ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر اعظم کے بقول تمام دستاویزات موجود ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وہ ذرائع ہیں جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے، دستاویزات سے لگتا ہے کہ طارق شفیع میاں شریف کے لیے کام کرتے تھے۔

 دستخط طارق شفیع نے کیے تو شہباز شریف وہاں نمائندگی کس بات کی کررہے تھے؟، طارق شفیع کے 2 دستاویزات میں کیے گئے دستخطوں میں کوئی مماثلت نہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ گلف اسٹیل مل2 کروڑ 10 لاکھ درہم میں فروخت ہوئی لیکن مل کی فروخت سے طارق شفیع کو ایک روپیہ تک نہیں ملا، طارق شفیع نے اپنے بیان میں آدھا سچ بولا، انہوں نے بیان حلفی میں کہا کہ دبئی کا کاروبار بے نامی تھا جب کہ شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے.

سب کچھ میاں محمد شریف نے کیا ہے، جدہ اور دبئی میں فیکٹریوں کے حوالے سے میاں شریف کے بچوں اور آگے سے ان کے بچوں نے کیا کردار ادا کیا؟۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 6 دسمبر تک ملتوی کردی۔