ایک اور کارنامہ

ایک اور کارنامہ

بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی آڑ میں عوام کو گروی رکھ کر اپنی حکومت بچانے والے خوشی کے شادیانے یوں بجا رہے ہیں کہ جیسے انہوں نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ ویسے تو اسی طرز کے موجودہ حکومت نے پہلے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں جن کی ایک لمبی چوڑی فہرست پہلے سے موجود ہے تاہم اب حکمرانوں نے اپنی حکومت بچانے کے لیے جو اقدام اٹھایا ہے دراصل وہ زہر قاتل اور غلامی کی دستاویز ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کی وجہ سے عوام کو گروی رکھ دیا گیا ہے۔ حکمرانوں کے اس عمل سے مزید مسائل اب جنم لیں گے ۔ غربت، مہنگائی، لاقانونیت، کرپشن، نا انصافی، شدت پسندی اور پاپولیشن اور بائیس کروڑ عوام اور ایک جرنیل جیسے مسائل ہمیں پہلے ہی در پیش ہیں۔ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ معاہدہ جو کہ ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے ہے کو اپنا عظیم کارنامہ گردان کر ڈھول کی تھاپ پر نا چ رہی ہے۔ وہ معاہدہ کیا ہے۔ اس معاہدہ کی کیا شرائط ہیں۔ اس کا ہم سب کو علم ہونا چاہیے۔ حکمران اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے جس کامیابی کا شور علی الاعلان کر رہے ہیں وہ کیا ہے۔ یقینا حکمرانوں کی ڈھٹائی کا عالم جان کر عوام پر سکتہ طاری ہو جائے گا۔ معاہدہ میں یہ طے پایا ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل خود مختاری دی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ اور تو اور پارلیمنٹ کے آگے بھی جوابدہ نہیں ہو گا۔ وہ صرف اور صرف آئی ایم ایف کو جوابدہ ہو گا۔ ہر ماہ 4 روپے پٹرولیم لیوی بڑھانا ہو گی۔ نئے ٹیکس لگانے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ سبسڈی ختم کرنی ہو گی۔ تمام نظام آئی ایم ایف کے تابع ہو گا۔ ہم تو یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے حاصل کیا کیا ہے۔ اس کو وہ کس طرح اپنا کارنامہ گردان رہے ہیں۔ ایسا کارنامہ صرف حکمرانوں کو مبارک ہو۔ وگرنہ عوام تو بخوبی یہ ادراک رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ موجودہ گورنر سٹیٹ بینک آف پاکستان بظاہر تو ہمارا لیکن در پردہ آئی ایم ایف کا ہی آلہ کار ہے۔ اس کا رشتہ ہم سے محض تنخواہ لینے کی حد تک کا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا اٹھنا ، بیٹھنا ، سوچنا ، کرنا، اس کا ہر عمل پہلے ہی انہی کے لیے ہے جنہوں نے اسے تعینات کرایا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سٹیٹ بینک کے گورنر کو ہمیں تباہی سے دو چار کرنے کے لیے یہاں بٹھایا گیا ہے تو یہ بعید نہ ہو گا اور دوسری بات ان شرائط کے پس منظر میں دیکھا جائے پھر یہ تو ایک طرح سے ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے یہ کیا مذاق ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک ملازم پاکستان کا ہو گا مگر وہ جواب دہ صرف اور صرف آئی ایم ایف کو ہو گا۔ مطلب کہ مانیٹری پالیسی اس کا دائرہ کار ہو گا۔ انٹرسٹ ریٹ کا تعین وہ کرے گا۔ حکومت کو اس صورت میں چاہئے کہ وہ سٹیٹ بینک کو حوالے ہی آئی ایم ایف کے کر دے کم از کم اس سے لمبی چوڑی تنخواہیں دینے سے تو جان چھوٹ جائے گی۔ اس صور ت میں علی احمد کرد صاحب کی اس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے ۔ بائیس کروڑ عوام اور ایک جرنیل۔ پاکستان کی مقتدر قوتوں اور تھنک ٹینک نے نیا تجربہ کر کے ایسے لوگوں کو حکومت کی مسند پر بٹھا دیا جن کا سچ اور عقل سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔جھوٹ اتنا کہ سچ بھی شرما جائے۔ حماقتیں ایسی ایسی کہ عقل کہیں چپ سادھ لے۔ مقتدر قوتیں توپوں اور ٹینکوں سے گولے پھینکتی تھی اور حکومتی آلہ کار منہ سے گولے نکالتے ہیں۔ پاکستان میں کسی سیاسی جماعت کی کیا مجال ہے کہ اب ان دونوں کے آگے کوئی عقل کی بات رکھ سکے یہ سب انہی حماقتوں کا کیا دھرا ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر جون 2018ء تک بننے والی تمام حکومتوں نے 71 سال میں 25 ہزار ارب روپے کا قرضہ بوجھ 2018ء کو چھوڑا جبکہ موجودہ حکمرانوں نے اپنی نادانیوں کی وجہ سے اپنی نا اہلی کے باعث حکومت کے صرف تین سال میں 16 ہزار ارب روپے قرضہ کا بوجھ ڈال دیا ہے یعنی کہ اب پاکستان 41 ہزا ر ارب روپے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ حکمران، اشرافیہ، بیورو کریٹس، معزز حاضر سروس ججز ، ریٹائرڈ ججز، حاضر سروس جرنیل اور ریٹائرڈ جرنیل اس بوجھ سے مبرا ہیں جو اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کا نام عوام ہے۔ ہم لکھنے والوں کو ہمارے محسن ان کے ڈر سے دبائے رکھتے ہیں جب بھی کسی کالم میں بائیس کروڑ عوام اور ایک جرنیل کا لفظ لکھ دیا جائے تو اس کو روک لیا جاتا ہے۔ یہ  بات الگ ہے کہ ہم ڈرتے ہیں نہ ہمت ہارتے ہیں کیونکہ ہم عوام ہیں۔ کوئی تو ہو جو حکمرانوں کی پشت پناہی کرنے والوں سے یہ عرض کرے کہ خدارا اب کوئی اور تجربہ کر لیں وگرنہ عوام کا دم گھٹنے کے قریب ہے۔