ادیبوں کا استحصال بند کریں

ادیبوں کا استحصال بند کریں

گزشتہ کالم پہ محترم حسین مجروح کا خط موصول ہوا‘خط میں سائباں تحریک کے اغراض و مقاصد اور اب تک کی جانے والی کوششوں کے بارے تفصیلی آگاہ کیا‘ آپ خط ملاحظہ فرمائیں:
’’عزیزم آغر ندیم سحر صاحب،سلام و رحمت!آپ کا کرم کہ آپ نے سائباں تحریک کے مقاصد اور طریقِ عمل میں دل چسپی ظاہر کی اور اس قافلے کا فعال حصہ بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔سائباں تحریک کی بابت تعارفیہ ہمراہ پانچ رکنیت فارم ارسال ہیں۔آپ سے استدعا ہے کہ اپنے قریبی احباب کو بھی اس ہمہ جہت ادبی تحریک کا حصہ بننے کی ترغیب دیں،اپنے قیام کے ابتدائی چھ ہفتوں میںسائباں تحریک نے دو سو سے زائد ارکان بنائے ہیں،چار مرحوم ادیبوں کے معیاری مسودات (جن کی اشاعت کا کوئی امکان نہیں تھا)ان کے پس ماندگان سے بغرضِ اشاعت حاصل کیے ہیں‘دو کی کمپوزنگ بھی شروع ہو چکی۔چار مؤقر ادبی جرائد کے لیے چالیس چالیس نئے سالانہ خریداروں کا اہتمام کیا ہے اور رقم خریداری چیک مدیران کرام کو پیش کر دیے ہیں۔تین بیمار؍مفلوک الحال ادیبوں کے علاج معالجے اور کفالت کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔نئے لکھنے والوں کے لیے تخلیقی رہنمائی کی غرض سے دو ورکشاپیں منعقد کی ہیں۔ادیبوں کو رائلٹی دلوانے اور قارئین کو سستی کتابیںفراہم کرنے کے کچھ منصوبوں پر کام جاری ہے۔آغرؔ ندیم سحر صاحب! یہ محض ابتدائی اقدامات ہیں۔جوں جوں قافلہ بڑھے گا‘ادب اور ادیبوں کی فلاح کے بہت سے کام سائباں کے زیر ِاہتمام تکمیل پائیں گے‘انشا اللہ۔ہم آپ کے پرجوش تعاون کے منتظر ہیں ۔خیرطلب:حسین مجروح‘‘۔ اس خط کے ساتھ محترم حسین مجروح نے تعارفیہ بھی بھیجا جس میں یہ بتایا گیا کہ سائباں تحریک بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ 
راقم نے گزشتہ کالم میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ہمارے ہاں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ ہمیشہ استحصالی سلوک روا رکھا گیا‘ان کی تحریروں سے ناشر سے جلد ساز تک پیسہ کماتا رہا مگر ادیب ہر دور میں سرمایہ داری نظام کی بھینٹ چڑھتا رہا۔حسین مجروح کی یہ کاوش انتہائی اہم اور عمدہ ہے‘اگر ہمارے قلم کار تعصبات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس تحریک کا حصہ بنے تو اس کے اثرات یقینا دیر پا ہوں گے۔تعارفیہ کے آغاز میں مجروح صاحب نے انتہائی اہم بات کی:’’ادب اور ادیب کو بند گلی میں دھکیلنے کا مکروہ عمل ہمارے ہاں عشروں سے جاری ہے‘جس کے نتیجے میں ادیب معاشرے کا شودر اور ادب ہم عصر زندگی رفتہ رفتہ بے دخل کیے جا چکے ہیں۔غضب خدا کا،بائیس کروڑ کے اس انسانی جنگل میں(اصل تعداد کہیں زیادہ)سنجیدہ کتاب بائیس سو کی تعداد میں بھی نہیں چھپتی۔ہزار کوہِ ندا ٹاپنے کے بعد کتاب چھپ جائے تو اس کی نکاسی اور فروخت کارے دارد۔طُرفہ تماشہ یہ کہ اس کارِ تیشہ گری میں کیا ناشر،کیا کمپوزر،کیا چھاپہ خانے والا۔کیا جلد ساز سبھی پیسہ کماتے ہیں لیکن ادیب کی صرف جیب کٹتی ہے!گویا دکھ اٹھائیں بی فاختہ اور مزے کریں۔۔۔۔۔ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت معاشرہ، ادب سے متعلقہ ادارے سبھی اس دگرگوں صورتِ حال کے تدارک کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر بھی آمادہ نہیں‘‘۔
دوستو!آپ مجروح صاحب کی مندرجہ بالا باتوں سے سو فیصد متفق ہوں گے ۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکار دربار کی طرف سے ہمیشہ اس طبقے کو نظر انداز کیا گیا‘اگر کبھی ایوارڈز یا تمغوں کی باری آئی ‘تب بھی چند من پسند ادیبوں کو نوازا گیا اور یوں یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش ہوتی رہی کہ سرکار تو قلم کاروں سے بہت محبت کرتی ہے اور اس طبقے کی سرپرستی کرنا چاہتی ہے‘حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ادیب کی توہین‘ادیب کا استحصال اور ہر سطح پر ادیب کی حق تلفی کا عمل مسلسل کئی دہائیوں سے جاری ہے‘جامعات کی سطح پر ہونے والے مشاعروں اور ادبی تقریبات میں جامعات سے وابستہ افراد کو ہی ترجیح دی جاتی ہے یا پھر ان گروہ بازوں کو مدعو کیا جاتا ہے جنہوں نے پوری پلاننگ کے ساتھ جامعات سے وابستہ نئے لکھنے والوں کو ٹریپ کیا‘انہیں شاگردی کا جھانسہ دے کربین الکلیاتی؍ جامعاتی مقابلہ جات میں انٹری کی اور یوں تعلیمی اداروں کے مشاعروں پر ’’قبضہ مافیا‘‘ بن کر مسلط ہو گئے۔ حکومتی اداروں اور قومی ٹی وی چینلوں پر ہونے والے مشاعروں‘قومی کانفرنسوںاورقومی دنوں پر تقریبات میں بھی وہی ادیب بلائے جاتے ہیں جن کا معاشی و سماجی اثرورسوخ ہوتا ہے‘ادیب بڑا ہو یانہ ہو ‘ عہدہ بڑا ہونا چاہیے‘یعنی اندھا بانٹے ریوڑیاں۔۔۔۔۔۔۔۔ 
سائباں تحریک نے کم از کم عشروں سے جاری اس استحصالی رویے اورادبی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھائی کہ ناشرین ہوں یا قومی اداروں کی انتظامیہ‘ جینوئن ادیب کا استحصال اب بند ہونا چاہیے۔ کتاب کلچر ختم ہونے کا شور مچانے والوں کے خلاف ’’قلم توڑ‘‘ ہڑتال کی ضرورت ہے‘بڑے بڑے کتابوں کے تاجروں سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے‘سینئرز ادیب جو کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں‘ان کی سرپرستی کی ضرورت ہے۔یہ کام اکیلے حسین مجروح کا نہیں ہے‘جینوئن ادیب ہم سب کی ذمہ داری ہے‘پورا معاشرہ اس کا مقروض ہوتا ہے کیونکہ ادیب معاشرے کے خد و خال بتا اور بنا رہا ہوتا ہے۔آج سائباں تحریک کا آغاز ہوا‘ادیب کے حقوق کی بات ہوئی‘یہی بات ایک عرصہ سے ہوتی آ رہی ہے کہ اگر سیاسیوں‘صحافیوں اور وزیروں کے لیے رہائشی کالونی ہو سکتی ہے تو ادیبوں کے لیے کیوں نہیں؟ادیب‘ مذکورہ تینوں سے زیادہ حق دار ہے۔سرکار بہادر کی نگاہ صرف اسی طبقے پر نہیں پڑتی‘شاید اس لیے بھی حکمران ادیبوں کو سیریس نہیں لیتے کیونکہ انہیں بلیک میل کرنا نہیں آتا‘یہ بغیر کسی لالچ اور طمع کے لکھنے میں مگن رہتے ہیں‘ ان کے نزدیک لکھنا عبادت ہے۔میری سرکار بہادر سمیت اورہر ذمہ دار اور باشعور شہری سے گزارش ہے کہ سائباں تحریک کا علم بلند کریںاور ادیبوں کے لیے آواز بلند کریں۔ادیبوں اور قلم کاروںسے بھی گزارش ہے خدارا! اپنے حق میں اٹھنے والی اس تحریک کو سپورٹ کریں‘ آج اگر یہ آواز کمزور پڑ گئی تو مستقبل میں کوئی بھی آپ کے لیے آواز نہیں بلند کرے گا‘کم از کم اپنے ساتھ مخلص ہو جائیں تاکہ ادیبوں کا استحصال بند ہوسکے۔