امریکا کی طرف سے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، نیویارک ٹائمز

امریکا کی طرف سے لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے، نیویارک ٹائمز

واشنگٹن: امریکا کی طرف سے افغانستان میں منشیات کی پیداوار کم کرنے کے لئے آٹھ ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود یہاں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے جو طالبان پر قابو پانے کی کوششوں میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بات معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہی۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کے کئی حصوں میں طالبان کا مزید علاقوں پر قبضے کے نتیجہ میں اس ملک میں منشیات کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے اور افیون کی عالمی پیداوار میں افغانستان کا حصہ بڑھ کر 85 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ افغانستان میں تیار کی جانے والی منشیات کا بڑا حصہ امریکا اور مغربی ممالک تک پہنچ رہا ہے اور امریکا اس کو روکنے کے لئے اب تک آٹھ ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے اس کے باوجود اسے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ قبل ازیں افیون کی بڑی مقدار خام صورت میں بیرون ملک سمگل کی جاتی تھی لیکن اب اس کا تقریباً نصف حصہ افغانستان کے اندر ہی ریفائن کیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کو بیرون ملک سمگل کرنا نسبتاً آسان ہو گیا ہے۔ اس پیش رفت کے نتیجہ میں منشیات کی سمگلنگ سے آمدن میں بھی اضافہ ہوا ہے جو ان کی مجموعی آمدن کے ساٹھ فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حال ہی میں افغان صدر اشرف غنی نے بھی منشیات کی سمگلنگ سے آمدن میں اضافے کو طالبان کے خلاف کارروائیوں میں ایک اہم مشکل قرار دیا ہے ۔ منشیات کی پیداوار والے مزید علاقوں پر قبضے کی وجہ سے آنے والے مہینوں اور سالوں میں طالبان کی آمدنی میں مزید اضافہ متوقع ہے۔رپورٹ میں افغانستان کے نائب وزیر داخلہ جنرل عبدالخلیل بختیار کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران طالبان نے منشیات تیار کرنے والی کئی فیکٹریان قائم کی ہیں۔

جنرل عبدالخلیل کے مطابق طالبان کی زیر کنٹرول افغان علاقوں میں منشیات تیار کرنے والی فیکٹریوں کی تعداد چار سو اور پانچ سو کے درمیان ہے جن میں سے ایک سو کے قریب افغان سکیورٹی فورسز نے تباہ کی ہیں لیکن اس سے منشیات کی پیداوار میں کوئی کمی نہیں آئی جس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان ایسی فیکٹری ایک دن میں تیار کر سکتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں گذشتہ سال افیون اکانومی کا حجم سو فیصد اضافے کے ساتھ تین ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور یہ ملک کے جی ڈی پی کا 16 فیصد ہے۔ کینیڈا میں پہنچنے والی 90 فیصد اور برطانیہ پہنچنے والی 85 فیصد ہیروئن کا تعلق افغانستان سے ہے۔

دوسری طرف اس مسئلے سے نمٹنے والی افغان فورسز کی افرادی قوت محض ساڑھے چار سو سے چھ سو کے درمیان ہے۔2015ء کے دوران افغانستان میں تیس ہزار کلو گرام افیون ضبط کی گئی۔اس حوالہ سے دستیاب اعداد و شمار سے یہ بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں افیون کی پیداوار میں کمی اور ہیروئن اور مارفین کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں