کیا پی ٹی آئی ریورس گئیر میں ہے؟

کیا پی ٹی آئی ریورس گئیر میں ہے؟

ویسے تو سیاست کوئی لافانی چیز نہیں لیکن اس کے آثار جس قدر ہمارے ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں شائد دنیا کے دیگر ممالک میں اس کی مثال کم ہی ملے۔ اگر بہت زیادہ ماضی میں نہ بھی جائیں تو بھی جماعت اسلامی، نیشنل عوامی پارٹی ( NAP) ، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم  پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم ) اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان مثالوں میں سے نواز لیگ کی مثال ایسی ہے کہ جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسے ایک سے زیادہ مواقع ملے ورنہ جس بھی سیاسی پارٹی کا سفینہ ایک مرتبہ ڈوبا تو پھر وہ دوبارہ پہلے جیسی مقبولیت حاصل نہ کر سکی۔ 
اگرملک کی سیاسی پارٹیوں کے اتار چڑھاو کا ذکر ہو تو عمران خان صاحب کی پاکستان تحریک انصاف کا کردار بھی خاصہ دلچسپ نظر آتا ہے۔ سیاست اور تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے احباب نوٹ کرتے ہوں گے کہ سالہا سال تک ایک ٹانگہ پارٹی کی حد تک محدود رہنے والی پاکستان تحریک انصاف اچانک ایک قومی پارٹی بن کر اتنی طاقتور کیسے ہو گئی کہ اس نے نہ صرف صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتیںحاصل کر لیں بلکہ مرکز میں بھی اپنا سکہ جمانے میں کامیاب ہو گئی۔ 
پاکستان تحریک انساف کو بھر پور عروج اس وقت ملا جب پاکستان مسلم لیگ (نواز) ، پاکستان پیپلز پارٹی اور مشرف آمریت کے بعد عوام اس سسٹم سے اس قدر نالاں تھے کہ کہ پاکستان میں ایک حقیقی تبدیلی اور انقلاب کے لیے ماحول بالکل تیار تھا ، جو یقینا یہاں کے عوام کا حق بھی تھا۔ لیکن مقتدر حلقوں کو شائد یہ سب منظور نہ تھا لہٰذا ایک حقیقی انقلاب کا راستہ روکنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور اس پر عملدرآمد کے لیے سیاست کی ریس میں تقریباً آخری نمبروں پر دوڑنے والے گھوڑے کو نمبر ون بنانے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس سلسلہ میں لکی ڈرا میں عمران خان صاحب کا نام نکل آیا تو ان کی سمجھ بوجھ، سیاسی تدبر، انتظامی صلاحیتوں ، ذہانت کے لیول اور ان کے اخلاقی معیار کو کسی بھی کسوٹی پر پرکھے بغیر ہما کو پکڑ کر ان کے سر پر بٹھا دیا گیا۔ 
ایک ٹانگہ پارٹی کے سربرہ کو اس لیول پر لانا کہ اس کا نام وزیر اعظم کے لیے زیر غور آ جائے یقینا کوئی آ سان کام نہ تھا۔ ان کی شخصیت کا قد بڑھانے کے لیے مختلف ٹوٹکے آزمائے گئے، اچانک وہ لاکھوں کے جلسوں سے خطاب کرنے لگے، مختلف سیاسی پارٹیوں سے الیکٹیبلزکو ہانک کر ان کی پارٹی میں شامل کروایا گیا، میڈیا پر ان کے امیج کو پروان چڑھانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی اور ان کے حق میں اور دوسروں کی مخالفت میں بے دریغ فنڈز خرچ ہوئے جس کے حقیقی ذرائع کا آج تک کسی کو کچھ پتا نہیں۔ 
اس وقت تو اپنے نام کے ساتھ وزیر اعظم لکھوانے کے شوق میں خان صاحب بھی ہر بات کو یس کرتے چلے گئے لیکن بعد ازاں عوام کو ان کی کارکردگی سے اور ان کو اس مقام تک پہنچانے والوں کو ان کے رویوں اور حرکات سے شدید قسم کی مایوسی ہوئی۔ اس کے باوجود خان صاحب کو چار سال تک مکمل فری ہینڈ دیا گیا لیکن معاملات بہتر ہونے کے بجائے بگڑتے چلے گئے۔ 
خیر قصہ مختصر چند ماہ قبل ایک مکمل جمہوری عمل کے نتیجہ میں عمران خان صاحب کو اقتدار سے رخصت کیا گیا۔ لیکن ایک جمہوری عمل کو شفاف اور ہموار بنانے میں مدد کرنے کے بجائے خان صاحب نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے ہر قسم کے منفی ہتھکنڈے آزمائے اور ناکام ہونے کے بعد ملک میں قائم ہونے والی جمہوری حکومت کے رواں انداز میں چلنے کو ناکام بنانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ 
یہ تو تھا ماضی کا ایک خلاصہ ۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ، اگرچہ موجودہ اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے میں چند ماہ ہی رہ گئے ہیں لیکن خاں صاحب اور ان کی پارٹی بضد ہیں کہ فوری طور پر نئے انتخابات کروائے جائیں۔ چونکہ حکومت میں رہنے کے دوران ان کی حرکتوں کے پول آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔شائد اس وجہ سے انہیں کامل یقین ہے کہ آنے والے چند ماہ میں ان کی مقبولیت کا بت پاش پاش ہو جائے گا اور یہ ممکنہ طور پر ایک مرتبہ پھر سے ایک ٹانگہ پارٹی میں تبدیل ہو جائیں۔ ورنہ ایک ایسی صورتحال میں جب ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے شدید دباو کا شکار ہے اور اس کی اکانومی کسی بھی اضافی خرچ کی متحمل نہیں ہو سکتی ، فوری طور پر انتخابات کا مطالبہ کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں۔ 
موجودہ سیاسی صورتحال میں عمران خان صاحب کے ترکش میں جو آخری تیر بچا تھا وہ اسلام آباد کی طرف ایک بڑے لانگ مارچ (جس کی وہ کئی ماہ سے مسلسل دھمکی دے رہے تھے )کی کال دینا تھا۔اگر خان صاحب مجھ ناچیز سے مشورہ کرتے تو میں یقینا انہیں مشورہ دیتا کہ اپنی دھمکی کا پریشر قائم رکھیں اور ان حالات میں کسی بھی صورت اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہ کریں ۔ 
خیر اس بات کا ذکر ہی کیا کرنا جو ہوا ہی نہیں۔ بات تو وہ کرنی چاہیے جو ہوا۔ او ر جو ہوا وہ یہ ہے کہ خان صاحب نے آخری حربہ کے طور پر احتجاج کی کال تو دے دی لیکن اس کے اب تک کے نتائج توخان صاحب کے لیے خاصے مایوس کن نظر آ رہے ہیں۔ پروگرام تو چونکہ ہفتہ بھر کا ہے تو ممکن ہے کہ معاملات کسی سطح پر تبدیل ہو جائیں لیکن اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔
پے در پے ناکامیوں کے دھچکوں سے خان صاحب کو کم از کم اتنا تو سمجھ لینا چاہیے کہ الزام تراشی اور گالی گلوچ کی سیاست کے اثرات دیر پا نہیں ہوتے۔ وہ اگر ملک کی سیاست میں لمبی ریس کے گھوڑے بننا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ برداشت، بردباری، تدبر اور حکمت عملی سے کام لینا ہو گا۔ ہر کسی (دوسری پارٹیوں کے سیا ستدان، دفاعی اداروں، اعلیٰ عدلیہ اور دیگر آئینی اداروں) سے بگاڑ پیدا کر کے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔