تعلیم ،معاشرہ اور ریاست

تعلیم ،معاشرہ اور ریاست

ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ اس کو بدلنے کے لیے،درست تجزیہ لازم ہے۔کیا ہم اس مرحلے سے گزر گئے؟بنیادی سوال یہ ہے کہ بنیادی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کا باہمی تعلق کیا ہے؟ 
ایک استادڈاکٹرپرویز ہود بائی کو شکایت ہے کہ یونیورسٹی کی برقعہ پوش طالبات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ساتھ ہی یہ افسوس بھی کہ بچوں کو ناظرہ قرآن کیوں پڑھایا جا رہا ہے اور حفظ کیوں نصاب کا حصہ ہے؟اس رائے میں وہ تنہا نہیں۔ایک قابلِ ذکر تعداد ان کی ہم خیال ہے۔اس میں سنجیدہ لوگ بھی ہیں جن کی بات متقاضی ہے کہ اسے غور سے سنا جا ئے۔ ایسی ہی ایک شخصیت روبینہ سہگل بھی ہیں۔
پاکستان میں جن لوگوں نے سماجی علوم کو فروغ دینے میں بنیادی کردارادا کیا،روبینہ ان میں سے تھیں۔تعلیم سے متعلق نظری مباحث پر ان کا گراں قدر تحقیقی کام ہے۔ ان کی کتاب ’’قومیت،تعلیم اور شناخت‘‘ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے جو مضمون کی ابتدا میں اٹھایا گیا ہے ۔ انہوں نے جہاں نصاب اور نظامِِ تعلیم کے نظری پہلووں پر روشنی ڈالی ہے، وہاں پاکستان کی مختلف تعلیمی پالیسیوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔انہوں نے بتایا ہے کہ کس طرح ریاست کے تصورات بدلتے اور پھر نصابِ تعلیم، ان کے مطابق ڈھلتا چلا جاتا ہے۔ روبینہ سہگل کے مطابق دنیا کی تمام قومیں اس بات کا اہتمام کرتی ہیں کہ معاشرے کے علم اور روایت کو اگلی نسل کو منتقل کریں۔اسی تاریخی تسلسل سے کسی معاشرے کی پہچان بنتی ہے۔اس لیے اگر آج یا گزرے ہوے کل میں ،پاکستان میں بھی یہ ہو رہا ہے تو اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو اچنبے کی ہو۔تاہم سماج میں علم یا روایت کے تسلسل کا کوئی ایک ذریعہ نہیں ہو تا۔ایک علم وہ ہے جو ریاست عوام کو دینا چاہتی ہے۔ایک وہ ہے جو سماجی اداروں، کہانیوں اورکہاوتوں سے منتقل ہو تا ہے۔انتقالِ علم کے یہ ذرائع کبھی ہم آہنگ اور کبھی ایک دوسرے کے مخالف بھی ہوتے ہیں۔سماج ان کے امتزاج ہی سے، تنوع کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔
روبینہ سہگل نے تعلیم پر سماجی ارتقاکے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔طبیعی علوم اور سائنسی اندازِ فکر سے سماجی علوم پر جو اثرات مرتب ہوئے،ان کے 
نقصانات کو بیان کیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں:’’سائنس نے نہ صرف سوچ کا احساسات اور حقائق کا قدروں سے ناطہ توڑا بلکہ تحقیق کرنے والے کا ان لوگوں سے بھی ناطہ توڑا جن پر تحقیق کی جاتی ہے۔اس بات کو نظر انداز کر دیا گیا کہ لوگ ،انسان،ادارے ،بے حس اور بے جان چیزوں کی طرح نہیں ہوتے جن کا تحقیق پر کوئی ردِ عمل نہ ہو۔۔۔۔۔بہترین ریسرچ وہی ہوتی ہے جو جو کسی نہ کسی نظریے پر منحصر ہو۔۔۔۔۔یہ ممکن نہیں کہ سماجی زندگی کو سائنسی طریقوں سے تبدیل کیا جا ئے۔ سائنس کے استعمال سے زندگی میں کچھ آسانیاں اور سہولتیں ضرورمیسرہو جاتی ہیں لیکن روحانی،اخلاق اور سیاسی زندگی کو اگر سائنس کی بھینٹ چڑھا دیا جائے تو نہ اخلاق باقی رہتا ہے،یہ سیاست اور نہ خوب صورتی۔۔۔‘‘ (صفحہ59,60)۔
ڈاکٹرپرویز ہود بائی اور داکٹر عطا الرحمٰن جیسوں کا تعلق طبیعی علوم سے ہے۔ایک فزکس کے عالم ہیں اور دوسرے کیمسٹری کے۔ان کے باہمی اختلافات اپنی جگہ مگر سماج کو دیکھنے کا زاویہ ایک ہے۔ہود بائی جب قرآن مجید کی تعلیم جیسے مسائل پر گفتگو کرتے ہیں تو ان کی نظروں سے یہ بات اوجھل ہو جاتی ہے کہ وہ ایک ایسے سماج کے نصابِ تعلیم کی بات کر رہے ہیں جس کی ستانوے فی صد آبادی مسلمان ہے۔مسلمان یامسیحی ہونامعروضیت کی نفی ہے اور یہ ایک سماجی حقیقت ہے۔دنیا کا کوئی سماج معروضی نہیں ہو سکتا۔میرا خیال ہے روبینہ سہگل نے اسی بات کی شرح کی ہے۔
پاکستان میں اگر قرآن مجید، ناظرہ اورحفظ ،کی روایت زندہ ہے تو اسے سماج نے زندہ رکھا ہے۔یہ کبھی سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کا حصہ نہیں تھی۔اگر مختلف اوقات میں اسے حکومت کی تعلیمی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے تو اس کی وجہ عوامی مطالبہ ہے۔اس ملک میں ایسے نجی تعلیمی اداروں کی بھرمار ہے جو’کمپیوٹرا ور قرآن کی تعلیم ایک ساتھ ‘ کے بینر تلے اپنا تعلیمی ادارہ قائم کئے ہوئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے لوگ اپنے بچوں کودین اور دنیا کی بیک وقت تعلیم دینا چاہتے ہیں۔اگر ایک مسلمان اپنے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا چاہتا ہے تو اس میں کیا چیز، باعثِ اعتراض ہے؟ یا اگر ایک مسیحی خاندان چاہتا ہے کہ اس کے بچوں کو بائیبل کی تعلیم ملے تو اس میں حیرت کیسی؟
 اس لیے اگر سرکاری نصاب میں مسلمان بچوں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم کا اہتما م کیا جا رہا ہے تو اس پر اعتراض کوئی وزن نہیں رکھتا۔اس معاملے میں البتہ چند باتیں قابلِ توجہ ہیں۔ایک یہ کہ قرآن مجید کی تعلیم، عمر اور جماعت کی رعایت سے،ایک تسلسل کے ساتھ دی جائے۔دوسرا یہ کہ قرآن مجید کے ساتھ اسلامیات کو بطور مضمون پڑھانے کی ضرورت نہیں۔قرآن مجید سے بڑھ کر اسلامیات کی کوئی دوسری کتاب نہیں ہو سکتی۔تیسرا یہ کہ غیر مسلم طالب علموں کے لیے بھی ان کی مذاہب کی علما کے مرتب کردہ مذہبی کتب شامل نصاب ہو۔آج پر ویز ہود بائی جیسے دانش وروں کو یہ بتانا چاہیے کہ مسلمان طلبا کو مذہب کی تعلیم کیسے دی جائے نہ کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ انہیں مذہبی تعلیم کیوں دی جا ئے؟
ایک اعتراض یہ ہے کہ جب قرآن مجید کی تعلیم دی جا رہی ہے تو دیگر مضامین کی کتب کو مذہبی تعلیمات سے بوجھل نہیں کیا جا نا چاہیے۔یہ اعتراض درست ہے۔مجھے اس سے اتفاق ہے۔فزکس کی تعلیم فزکس سکھانے کے لیے دی جا نی چاہیے اور اسی طرح دیگر علوم کی بھی۔ایک بات البتہ توجہ طلب ہے۔جب ہم اردو پڑھاتے ہیں تو حمد یا نعت شاعری کے اصناف میں شامل ہیں۔اسی طرح محض زبان و بیان کے ا عتبار سے ہمارا دینی ادب کسی طرح غیر مذہبی ادب سے کم نہیں۔ اقبال کے بغیر اردو کی تعلیم کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟شبلی و حالی کے بغیر اردو کیسے سمجھ میںآئے گی؟  
یہ مراحل بنیادی تعلیم کی سطح پر طے ہو جاتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں ہمیں آگے کی بات کرنی ہے۔اس کا تعلق جامعات میں ایک ایسے ماحول کی فراہمی ہے جہاں علم تخلیق ہو سکے۔علم وہاں تخلیق ہوتا ہے جہاں علمی آرا رکھنے اور بیان کر نے کی آزادی ہو۔یہ آزادی انتہا پسندی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ اس لیے پہلے یونیورسٹیوں کوانتہا پسندی سے آزادکرنا ضروری ہے۔’شعور فاؤنڈیشن‘ جیسی غیر سرکاری تنظیمیں اس کے لیے کام کر رہے ہیں۔ عملاً یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب حکومت، جامعات کی انتظامیہ اور اساتذہ ایک پیج پر ہوں گے۔ 
لازم ہے کہ تعلیم کے ماہرین اسے موضوع بنائیں اور میڈیا ان کی بات کا ابلاغ کرے۔اس مسئلے کے حل کے لیے،اسے قومی سطح پر زیرِ بحث لانا اب ناگزیر ہو چکا۔ ہمیں اپنی نئی نسل ہی کو نہیں بچانا،ملک کو بھی ترقی یافتی بنانا ہے۔یہ کام اسی وقت ممکن ہے جب اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں علم تخلیق ہو رہا ہو۔علم میں ترقی ہی حقیقی ترقی ہے۔