امریکی خط کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف، عمران خان ،اعظم خان، شاہ محمود اور اسد عمر کے خلاف کارروائی کا فیصلہ 

امریکی خط کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف، عمران خان ،اعظم خان، شاہ محمود اور اسد عمر کے خلاف کارروائی کا فیصلہ 
سورس: File

اسلام آباد : وفاقی کابینہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکا میں پاکستانی سفیر کی طرف سے لکھے گئے سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس میں سائفر کی وصولی کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ 

وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت جمعہ کو کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں آڈیوز لیکس کے معاملے پر تفصیلی غور کیاگیا۔ اجلاس نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی (این-ایس-سی) کی طرف سے اس معاملہ کی مکمل تحقیق کرنے کے فیصلے کی تائید کی۔ تاہم اس امر پہ شدید تشویش کااظہار کیا کہ ڈپلومیٹک سائیفر سے متعلق سابق وزیراعظم، سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم اور دیگر افراد کی یکے بعد دیگرے سامنے آنے والی آڈیوز نے سابق حکومت اور وزیر اعظم عمران نیازی کی مجرمانہ سازش بے نقاب کردی ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ  ایک ڈپلومیٹک’سائیفر‘ کو من گھڑت معانی دے کر سیاسی مفادات کی خاطر کلیدی قومی مفادات کا قتل کیاگیا اور ’فراڈ، جعلسازی،’فیبریکیشن ‘ کے بعد اسے چوری کرلیاگیا۔ یہ آئینی حلف، دیگر متعلقہ قوانین، ضابطوں خاص طور پر ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ ریاست کے خلاف ناقابل معافی جرائم کا ارتکاب ہے جس کے ذریعے کلیدی ریاستی مفادات پر سیاسی مفادات کو فوقیت دی گئی ۔ لہذا آئین، قانون اور ضابطوں کے تحت لازم ہے کہ اس سارے معاملے کی باریک بینی سے چھان بین کی جائے اور ذمہ داروں کاواضح تعین کرکے انہیں قانون کے مطابق کڑی سزا دی جائے۔

ڈپلومیٹک سائیفر کے معاملے پر کابینہ کو بریفنگ دی گئی جس میں یہ انکشاف ہواکہ متعلقہ ڈپلومیٹک سائیفر کی کاپی وزیراعظم ہاﺅس کے ریکارڈ سے غائب ہے۔ سابق وزیراعظم کو بھجوائے جانے والے اس سائیفر کی وزیراعظم ہاﺅس میں وصولی کا اگرچہ ریکارڈ میں اندراج موجود ہے لیکن اس کی کاپی ریکارڈ میں موجود نہیں۔ قانون کے مطابق یہ کاپی وزیراعظم ہاﺅس کی ملکیت ہوتی ہے ۔

 اجلاس نے قرار دیا کہ ڈپلومیٹک سائیفر کی ریکارڈ سے چوری سنگین معاملہ ہے۔ کابینہ نے تفصیلی مشاورت کے بعد کابینہ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی جو تمام ملوث کرداروں سابق وزیراعظم عمران خان، سابق پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر اعظم خان ، سینئر وزرا  شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے خلاف قانونی کارروائی کا تعین کرے گی۔ کابینہ کمیٹی میں حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ خارجہ، داخلہ، قانون کی وزارتوں کے وزرا شامل ہوں گے۔ 

کابینہ کے اجلاس نے وزیراطلاعات ونشریات محترمہ مریم اورنگزیب کو لندن میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے ہراساں کرنے، ڈرانے دھمکانے، سربازار بدکلامی، بدتہذیبی کانشانہ بنانے اور ہجوم کی صورت میں گھیراﺅ اورپیچھا کرنے کی شدیدترین الفاظ میں مذمت کی ۔ 

اجلاس نے کہاکہ اسلام، مغربی تہذیب، قانون اور سیاسی کلچر میں مرد تو درکنار کسی خاتون کے ساتھ خاص طور پر اس نوعیت کے کسی منفی رویے کی کوئی گنجائش موجود نہیں، یہ محض غنڈہ گردی ہے جس کی کوئی معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ اجلاس نے مریم اورنگزیب کی مثالی تحمل مزاجی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے جذبے ، ہمت اور بہادری کو سراہا اوران کے ساتھ مکمل یک جہتی کا اظہارکیا۔

 اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت نے نہ صرف مرد سیاسی مخالفین خاص طورپر خواتین کو ہمیشہ بدتہذیبی اور بدکلامی کا نشانہ بنایا ہے بلکہ خواتین صحافیوں کے ساتھ بھی ہمیشہ نہایت ہی قابل مذمت رویہ اپنایا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے بارے میں عمومی طورپر پی ٹی آئی اور اس کے چئیرمین کا رویہ ہمیشہ ہی متعصبانہ، جانبدارانہ اور توہین آمیز رہا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے سمیت تمام پاکستانیوں کو اس ناقابل قبول طرزعمل کی مذمت کرنی چاہئے۔

وفاقی کابینہ نے وزارتِ قانون و انصاف کی سفارش پر ریکوڈک کے حوالے سے وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے ریکوڈک منصوبے کی تعمیر کے بارے سپریم کورٹ کے گزشتہ فیصلے کے حوالے سے وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ پاکستان کی طرف سے وضاحتی ریفرنس دائر کرنے کی منظوری دی۔ اس کے ساتھ ساتھ ریفرنس میں Foreign Investment (Protection & Promotion)، Bill 2022 کی منظوری کے حوالے سے بھی وضاحت طلب کی جائے گی۔

کابینہ نے وزارتِ داخلہ کی سفارش پر ’ای۔سی۔ایل‘ (Exit Control List)میں ناموں کی شمولیت اور اخراج کے لیے نئے’ایس۔او۔پی‘ (Standard Operating Procedure 2022) کی منظوری دی۔ نئے ’ایس۔او۔پی‘ کے تحت ’ای۔سی۔ایل‘ میں ناموں کی شمولیت اور اخراج کا طریقہ کار پہلے سے شفاف اور آسان بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ کابینہ نے ’ای۔سی۔ایل‘ میں 12 ناموں کی شمولیت اور 3 کے فہرست سے اخراج کی منظوری دی۔ 

مصنف کے بارے میں