سانحہ دل فگار اور بے لوث رضا کار!

سانحہ دل فگار اور بے لوث رضا کار!

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا منظر دیکھ کر جگر پھٹ جاتا ہے، کلیجہ منہ کو آتا ہے، انسانیت کی بے بسی پر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اللہ سے بغاوت میں تو اس ملک کے مقتدر طبقات اور سرمایہ داروں و جاگیرداروں کا بنیادی کردار ہے، مگر ہم بحیثیت قوم اجتماعی طور پر بھی اس جرم سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ ہم نے قیادت کا تاج ہمیشہ انہی کے سر پہ رکھا ہے جو نہیں جانتے کہ روشِ بندہ پروری کیا ہے۔ جو ہزاروں لوگ بوڑھے، بچے، مرد و خواتین سیلاب میں شہید ہوئے وہ کون تھے؟ وہ ہمارا ہی خون اور ہمارا ہی جگر تھے۔ جو لاکھوں گھر سیلاب میں بہہ گئے وہ ہماری ہی قوم کا سرمایہ اور سائبان تھے۔ جو مویشی ، فصلیں اور باغات نیست و نابود ہو گئے وہ ہمارے ہی جگر گوشوں کی ملکیت تھے۔ ہم لسانی، قبائلی اور علاقائی تقسیم سے ماورا ہیں۔ ہم سب نے وہ کلمہ پڑھا ہے جو ہم سب کو ایک ملت واحدہ بناتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہمیں بتایا ہے کہ بستیوں اور قوموں پر مصیبتیں کیوں اور کیسے آتی ہیں؟ سورۃ النحل میں ارشاد ہے: ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن واطمینان کی زندگی بسر کررہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کردیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔‘‘ (النحل: ۱۱۲)
قوم سبا کے حالات کم و بیش ہمارے حالات سے ملتے جلتے ہیں۔ یہ قدیم یمنی قوم انتہائی ترقی یافتہ مگر ناشکری تھی۔ اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’سبا کے لیے ان کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دائیں اور بائیں ہر دو جانب باغات ہی باغات۔ کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجالاؤ اس کا، ملک ہے عمدہ وپاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا، مگر وہ منہ موڑگئے۔ آخر کار ہم نے ان پر بند توڑ کر سیلاب بھیج دیا اور ان کے پہلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انھیں دیے جن میں محض کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں۔ 
یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ہم نے ان کو دیا، اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بدلہ ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔ اور ہم نے ان کے اور ان کی بستیوں کے درمیان، جن کو ہم نے برکت عطا کی تھی، نمایاں بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے پر رکھ دی تھیں۔ چلو پھرو ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ساتھ۔ مگر انھوں نے کہا اے ہمارے ربّ ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کردے۔ انھوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ آخر کار ہم نے انھیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں تتر بتر کر ڈالا۔ یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر وشاکر ہو۔‘‘ (سبا: ۱۵-۱۹)
آپ اندازہ کریں کیا یہ ساری باتیں، ہر جانب ہرے بھرے کھیت اور پھلوں سے لدے باغات ہمارے ملک کی پہچان نہیں؟ کیا وہ راستے جو اب ناپید ہو گئے، دن رات سفر کے لیے موجود نہیں تھے؟ قوم سبا نے ناشکری کی تو ہم ان سے بھی زیادہ ناشکرے ٹھہرے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔ 
ان مظلومین کی امداد کے لیے اوّل روز سے عملی کاوش اور اللہ کے دربار میں دعائوں کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ راتوں کو نیند نہیں آتی تو انہی کے خیال میں وقت گزرتا ہے اور اللہ سے ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ جماعت اسلامی کے کارکنان اور ذمہ دار سیلاب زدہ علاقوں میں الخدمت فائونڈیشن کے رضا کاروں کے شانہ بشانہ دن رات خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ پورے ملک میں سیلاب زدہ علاقوں کے جماعتی ذمہ داران کو جب میں دیکھتا ہوں کہ اپنے گھروں کی پروا کیے بغیر مصیبت زدگان کی مدد میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیںتو تصور میں ان کے ماتھے چومتا ہوں اور دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔
جماعت اسلامی کا یوم تاسیس 26اگست کو پورے ملک میں تجدید عہد کے طور پر منایا گیا۔ اس روز قیام پاکستان کے وقت کے تاریخی واقعات جو سنے اور پڑھے تھے دل میں سما گئے اُس دور میں بھی جماعت کے لٹے پٹے ارکان و کارکنان ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تھے، اپنے دکھوں اور زخموں کے باوجود مہاجرین بھائی بہنوں کی خدمت اور بحالیاتی میں ہمہ تن مصروف تھے۔ آج بھی اس قافلے کے راہی اسی جذبے کو زندہ کر کے سید مودودیؒ اور سابقین جماعت کی ارواح کو راحت پہنچا رہے ہیں۔
جماعت اسلامی اور الخدمت نے پورے ملک میں بازاروں، گلی کوچوں، چوکوںچوراہوں میں کیمپ لگا رکھے ہیں۔ شدید حبس اور گرمی میں کارکنان گھنٹوں ان کیمپوں پر اعلان کرتے اور معاونین سے اعانتیں وصول کرتے ہیں۔ ایک شام میں ایک کیمپ میں گیا تو نوجوانوں کو ہمہ تن مصروف دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اے اللہ! یہ تیرے دین کے سپاہی اور تیری مخلوق کے خادم ہیں۔ تُو ان کی کاوشوں کو شرف قبولیت عطا فرما۔ میں نے ہمیشہ ایک اصول پر عمل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا ہوں تو اپیل کرنے سے پہلے اپنی حیثیت کے مطابق اگرچہ وہ چند کھجوریں ہی کیوں نہ ہوں، اس فنڈ میں جمع کرائی جائیں اور پھر احباب اور عوام سے اپیل کی جائے۔ اللہ تعالیٰ اس میں بڑی برکت ڈالتا ہے۔ اس مرتبہ بھی بڑا خوشگوار تجربہ ہوا۔ اللہ نے لوگوں کے دل اس فنڈ میں حصہ ڈالنے کے لیے کھول دیے۔ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ جن سے ایمان تازہ ہو گیا۔
میڈیا عموماً ہمارے بارے میں خاموشی اختیار کیے رکھتا ہے، مگر اس موقع پر اللہ کا شکر ہے کہ الخدمت اور جماعت کا نام سرفہرست ہے۔ حکمران محض لیپاپوتی کر رہے ہیں۔ ہمارے رضاکار اور قیادت مسلسل سیلاب زدگان کی امداد میں مصروف ہیں ۔کسی سے نہ داد کی تمنا ہے نہ صلہ کی آرزو۔ یہ سب کام محض اللہ کی رضا کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اللہ قبول فرما لے تو یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں ریا کاری سے محفوظ رکھے اور اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری بشری کوتاہیاں اپنی جگہ ہوں گی کیوںکہ ہم فرشتے نہیں، مگر اللہ کا شکر ہے کہ ہم پبلسٹی کی خاطر نہیں دینی فرض اور رضائے الٰہی کے طور پر یہ سارے کام کرتے ہیں۔ پبلسٹی محض اس وجہ سے چاہتے ہیں کہ قوم کی توجہ اس کارِخیر کی طرف مبذول ہو جائے اور مظلومین کے زخموں پر مرہم پٹی کا اہتمام ہو سکے۔ سیلاب زدگان کی بحالیاتی کا کام کئی سال کا تقاضا کرتا ہے اور اس کے لیے سب فلاحی تنظیموں اور رضاکاروں کو تیار رہنا چاہیے۔ حکومت کو جو امداد آ رہی ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ مستحقین تک پہنچ جائے۔
یہ وقت اللہ کی طرف رجوع اور دعا کا تقاضا کرتا ہے۔ خود احتسابی اور اپنی اصلاح کرنے کے بغیر عذاب نہیں ٹل سکتا۔ اس سیلاب ہی کے دوران جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے دن جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر، بے مثال مفکر و مصنف، دین حق کے داعی اور مبلغ، مردِ درویش حضرت مولانا سید جلال الدین عمری بھی 88سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب نے اپنے ساتھیوں سے مشاورت کے بعد طے کیا کہ مولانا عمری صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ 28اگست بعد نماز عصر منصورہ میں ادا کی جائے۔ مجھے حکم ملا کہ میں نماز جنازہ پڑھائوں۔ اس موقع پر شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمالک، قیم جماعت امیر العظیم، نائب قیم جماعت حافظ ساجد انور، امیر ضلع لاہور ڈاکٹر ذکراللہ مجاہد صاحبان نے انتہائی مختصر اور دلنشین انداز میں مرحوم عمری صاحب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ 
میرے دل میں کئی دنوں سے یہ خیال آتا تھا کہ ہمارے پیارے جو سیلاب کی نذر ہو گئے جن کی میتیں بھی نہ مل سکیںاور نہ ہی ان کا کوئی سراغ پتا ہے کہ ان کے جسم کہاں چلے گئے، ان کے لیے غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا جائے۔ اس موقع پر جنازہ پڑھانے سے پہلے میں نے یہ اعلان کیا کہ آج ہم مولانا عمری صاحب کے ساتھ اپنے ان تمام بزرگوں، مائوں، بہنوں اور بچوں کا جنازہ بھی پڑھیں گے جنھیں جنازہ اور قبر نصیب نہ ہو سکی ۔ وہ شہید ہیں اور امید ہے کہ اللہ کے ہاں وہ جنت الفردوس میں مقیم ہوں گے۔ ہمارے اوپر ان کا یہ حق ہے کہ ہم انھیں اپنی دعائوںمیں یاد رکھیں۔ اس جنازے سے میرے دل کو قدر ے اطمینان ہواکہ ان شہدا کی روحیں بھی ہمارے اس عمل سے خوش ہوں گی۔ اللہ ہمیں اخلاص عطا فرمائے۔
اللہ نے ہمیں نجات کا راستہ بتا دیا ہے۔ اے اہل وطن آئو اس نصیحت کو پلے باندھ لیں۔ ارشاد باری ہے: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمانوں اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر انھوں نے تو جھٹلایا، لہٰذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا۔‘‘ (الاعراف: ۹۶)

مصنف کے بارے میں