ن لیگ کو مریم کی کیوں ضرورت ؟

ن لیگ کو مریم کی کیوں ضرورت ؟

مریم نواز اپنی ماں جیسی خوبیوں کی مالک ہیں ۔ بیگم کلثوم نواز میاں نوازشریف کو بحرانوں سے نکالا کرتی تھیں ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے ۔ جب بھی ن لیگ سمیت شریف خاندان پر مشکل وقت آیا ہے بیگم کلثوم نواز نے آئرن لیڈی کی طرح کردار ادا کیا ہے ۔جب مشرف نے جمہوریت پر شب خون مارا ،اور شریف خاندان کے مردوں کو پابند سلاسل کردیا، اس وقت بیگم کلثوم نواز صاحبہ نے لاہور سے اٹک جیل تک جدوجہد کی ایک تاریخی مثال قائم کی ۔ مشرف جیسا آمر ان کے عوامی انداز سے دبک گیا تھا اور لاہور سے پشاور تحفظ پاکستان کاروان سے ٹانگیں کانپ گئی تھیں۔کئی لیگی رہنماﺅں کو گرفتار کرلیا گیا لیکن محترمہ پھر بھی نہ ڈریں بلکہ کارکنوں کو لیڈکرتے ہوئے گھر سے باہر نکلیں اور آمر نے ان کو لفٹر سے گاڑی سمیت اٹھا لیا تھا ۔ لیکن حوصلہ پست نہ ہوا اور اے آر ڈی کے نام سے سیاسی اتحاد بنایا اور ایک آمر کی قید سے جمہوری قیدیوں کو باہر نکالا ۔ 
پانامہ اسکینڈل میں میاں نوازشریف کو پھر سیاسی میدا ن سے باہر نکالا گیا ، مسلم لیگ ن کی سیاست دوبارہ بحرانوں کا شکار ہوئی، میاں نوازشریف کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ بیگم کلثوم نواز نے دوبارہ میاں نوازشریف کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے ہمت باندھی اور میدان میں آگئیں اور خاوند کی نشست لاہور کے حلقہ این اے 120سے الیکشن لڑا،اور تمام تر سازشوں کے باوجود تاریخی فتح حاصل کرلی ۔ لیکن اس بار کینسر جیسے موذی مرض نے انہیں خاوند کے ساتھ کھڑے ہونے کا موقع فراہم نہ کیا اور وہ بستر مرگ پر لیٹ گئیں۔ اور پھر وہاں سے شروع ہوئی مریم نواز صاحبہ کی جدوجہد یعنی مریم نواز نے ماں کی اسی میراث کو آگے بڑھایا ، باپ کیساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ، ماں کی طرح میاں نوازشریف کو بحرانوں سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ۔ 
پھر ہم سب نے دیکھا مریم نواز نے کس طرح باپ کیساتھ کھڑے ہوکر دکھایا ، جیل تک ساتھ گئیں ۔ وہ اپنی ماں سے دو قدم آگے ہی رہی ہیں اور ابھی تک وہ جدوجہد جاری ہے ۔یہ مریم نواز کی ہی جدوجہد ہے جس کی بدولت میاں نوازشریف کا بھرپور مزاحمت کا بیانیہ سر چڑھ کر بولا ،جس نے طاقت کے محوروں کو گھبرانے پر مجبور کیا ۔ مین اسٹریم میڈیا پر پابندی کے باوجو د ووٹ کو عزت دو کانعرہ جس طرح پاکستان کے کونے کونے تک پھیلا ، اس کی مثال نہیں ملتی ۔اور یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر مریم نواز اس بار بھرپور مزاحمت نہ کرتیں تو شاید میاں نوازشریف کو ملکی سیاست سے ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جاتا۔ مریم نواز کی بدولت یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک بھرپور مزاحمتی بیانیے کے باوجود ن لیگ کے لوگوں کو توڑنے میں کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔ بلکہ ضمنی انتخابات میں پہلی بار کوئی حکومتی جماعت مسلسل شکست کھارہی تھی اور ن لیگ فتح یاب ہورہی تھی ۔ غرضیکہ ن لیگ کا ٹکٹ ہا ٹ کیک بن چکا تھا ۔ 
 کلثوم نواز کی شبیہ نے چند تین سال کے قلیل عرصے میں پاکستان کی سیاست میں ایک نیا انقلاب برپا کیا، اور سیاست میں خود کوقلیدی حیثیت دلوائی ۔ آج پاکستان کی سیاست مریم نواز کے بغیر نامکمل ہے ۔ اب سیاسی پنڈتوں سے پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں پاکستان کی سیاست کا مستقبل ہی مریم نواز ہیں ۔ اور یہی مریم نواز آج سے چند سال پہلے گمنام تھیں ۔ مجھے مرحوم مشاہد اللہ صاحب کے الفاظ یاد آگئے وہ کہا کرتے تھے مریم نواز میں طوفان کے مخالف سمت میں سفر کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مریم نواز نے اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرکے ثابت کیا کہ وہ مزاحمت کی بہت بڑی علامت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی نے مریم نواز کو دنیا کی سو بااثر ترین خواتین کی فہرست میں شامل کیا ، نیویارک ٹائمز نے دنیا کی گیارہ بااثر ترین خواتین کی فہرست میں شامل کیا ۔
مریم نواز نے میاں نوازشریف کے خلاف سازش کے بعد جدوجہد میں سوائے ایک کے تمام ٹارگٹ پورے کیے ۔ مریم نواز چاہتی ہیں کہ ان کے والد میاں نوازشریف کی عزت کیساتھ پاکستانی سیاست میں واپسی ممکن ہو ۔ جو ان کے خلاف پانامہ اسکینڈل کو لیکر کیسز بنائے گئے ، سزائیں سنائی گئیں ۔ جن کے خلاف مرحوم جج ارشد ملک ، شوکت عزیز صدیقی ، گلگت کے سابق چیف جسٹس سمیت کئی گواہیاں آچکی ہیں ۔ ان کیسز پر نظرثانی ہونی چاہیے ۔ہوسکتا ہے اس چیز کو لیکر ان کے اپنی حکومت سے بھی تحفظات ہوں ۔ کیونکہ اگر چچا شہبازشریف وزیر اعظم ہیں تو وہ بھی اسی مزاحمت کی بدولت ہیں جو مریم نواز نے باپ کیساتھ ملکر کی ہے ۔ تو اس ساری صورتحال میں حکومت میاں نوازشریف کی سزاﺅں کو محض میرٹ پر دیکھے تو یہ فوری معطل ہوتی ہیں ۔ سیاسی ڈیل تو بہت دور کی بات ہے ۔ گزشتہ دنوں معزول جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب سے گفتگو ہوئی ،انہوں نے ان سزاﺅں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا یہ کیسز تین سے چار سماعتوں کے قابل نہیں ہیں ۔ اور اگر ان کیسز کو میرٹ پر سنا جائے تو بریت ہوجانی چاہیے۔ یہاں پر سوال یہ ہے کہ ان سزاﺅں میں نظرثانی اب تک کیوں نہ ہوسکی اور اس پیشرفت میں رکاوٹ آخر کیا ہے ؟ 
اور اگر مریم نواز کی جدوجہد کی بات کی جائے تو انہوں نے پارٹی کو ایک نئی جان بخشی ہے ۔جو مسلم لیگ ن اقتدار کی جماعت کہلایا کرتی تھی اس کو مزاحمت کی علامت بنایا ہے ۔ اگر دوبارہ ن لیگ پر پرانا وقت لوٹ رہا ہے تو قیادت کو سوچنا چاہیے کہ پارٹی کی باگ ڈوراگر مریم نواز کو مکمل طور پر سونپ دی جائے تو وہ اس بار بھی مایوس نہیں کریں گی ۔ اگر 12 اکتوبر 1999سے لیکر 10اکتوبر 2002تک بیگم کلثوم نواز پارٹی کی صدر بن کر مشرف جیسے آمر کو ٹکر دے سکتی ہیں تو مریم نواز تو کلثوم نواز سے دوگنا زیادہ مضبوط ہوچکی ہیں انہیں بھی ایک موقع دیکر آزمالینا چاہیے ۔ 

مصنف کے بارے میں