ڈیل ، دائرے کا سفر

ڈیل ، دائرے کا سفر

پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ جنرل مشرف کے دور میں بنائی جانے والی ق لیگ سے بھی گیا گزرا ہے ۔ ق لیگ مارشل لا کا سویلین چہرہ ہونے کے باوجود اپنے ارکان اور قیادت کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک سیاسی اپروچ رکھتی تھی جبکہ پی ٹی آئی اس تکلیف سے بھی آزاد ہے اور اس نے اپنا سب کچھ ’’ بڑوں ‘‘ پر چھوڑ رکھا ہے ۔ ہر وہ الیکشن جس میں مقتدر طاقتیں ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر ڈبے ووٹوں سے بھرنے کا اہتمام خود نہ کریں وہ حکومتی جماعت کیلئے شرمندہ کردینے کی حد تک ناممکن ٹاسک بن جاتا ہے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کی وجہ ہائبرڈ نظام کی جانب سے تمام معاملات خود کنٹرول کرنا تھا ۔ زمینی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کے پی کے ، کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں عدم مداخلت کا مظاہرہ کیا گیا تو حکومتی جماعت کیلئے گیم ہی الٹ گئی ۔ یہ تو طے ہوگیا کہ موجودہ سول سیٹ اپ کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید کے بغیر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ اپنے لئے اس آئیڈیل حالات کی موجودگی میں اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی ہٹا کر کسی اور کو کیوں لانا چاہے گی ۔ اس کے باوجود قوم کو وقفے وقفے سے سننے کو ملتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت جارہی ہے۔ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی ڈیل ہونے والی ہے ۔ یہ سلسلہ اب کا نہیں بلکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد شروع ہوگیا تھا ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے جب کبھی حکومت کو گھر بھجوانے کا تاثر زور پکڑتا تھا تو آئی ایس پی آر کے ڈی جی میڈیا کے روبرو آکر اسکی تردید کردیا کرتے تھے ۔ اب یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے۔ متبادل طریقہ اختیار کیا گیا جس کے تحت کوئی نامعلوم دفاعی ذریعہ کسی بڑے میڈیا گروپ کے صحافی کو بلا کر بتاتا ہے کہ اپوزیشن رہنمائوں کے دعووں میں کوئی صداقت نہیں ۔ ان دنوں پہلے آصف علی زرداری پھر نواز شریف کی ممکنہ ڈیل کے حوالے سے تردید ایسے ہی ذریعے سے کرائی گئی ۔ شیخ رشید چند روز سے چپ تھے پھر شاید انہیں کہا گیا کہ وہ سب کو بتا دیں کہ عمران حکومت کہیں نہیں جارہی اور بڑوں کا ہاتھ اس حکومت کے سر پر ہے ۔ کیا واقعی ایسا ہے ؟ قطعی نہیں ، اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام فریق کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کررہے ہیں جو موجودہ سیاسی بندوبست کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ ٹھوس حقیقت تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ شروع دن سے تمام فریقوں کے ساتھ رابطے میں ہے ۔ جس طرح عمران حکومت ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوچکی عین اسی طرح ’’ ناپسندیدہ ‘‘ سیاستدانوں اور پارٹیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا اسٹیبلشمنٹ کا آہنی عزم بھی ریت کی دیوار بن کر بکھر چکا ہے ۔ اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ مخالف سیاسی سٹیک ہولڈروں کو اپنی شرائط پر سسٹم کے اندر لایا جائے ۔ سو باربار مذاکرات ہورہے ہیں جب کوئی نتیجہ نہیں نکل پاتا تو پھر حکومت کی حمایت کا اعادہ کرکے پھر سے مذاکرات کرنے کیلئے اپنی پوزیشن کو مضبوط بنایا جاتا ہے ۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کے نام پر فرنٹ پر رکھے گئے افراد محض پروٹوکول لینے اور بیانات دینے کی ڈیوٹی کررہے ہیں ۔ جہاں کسی کا دائو لگے مال بنانے سے بھی نہیں چوکتا ۔ تمام تر اختیارات ، چھوٹے بڑے عہدوں کی بندر بانٹ اور پالیسیاں بنانے کا مرکز کہیں اور ہے ۔ اس کی تازہ مثال وزیر اعظم عمران خان کا وہ بیان ہے کہ جس میں انہوں نے سراسیمگی کے عالم میں گلہ کیا کہ عدالت سے سزا یافتہ مجرم ( نواز شریف ) کو چوتھی بار وزیر اعظم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس بیان سے بھی واضح ہے کہ صرف بے اختیار اور بے خبر ہی نہیں بلکہ اپنے لانے والوں کے متعلق بد گمانی کا شکار بھی ہیں ۔ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو آخر کیوں ہٹانا چاہے گی ۔ ان کے تمام وزرا اور وزرائے اعلیٰ تک بالکل اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جو طاقتور اداروں کے 
افسروں کو درکار ہے ۔ پھر یہ تصور بھی باربار باطل ثابت ہوچکا کہ اسٹیبلشمنٹ کو عوامی مشکلات یا تکلیفوں کا کوئی احساس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی چیز اسٹیبلشمنٹ کو ناپسندیدہ سیاستدانوں سے مذاکرات پر مجبور کررہی ہے تو یہی ہے کہ یا تو اسے اس سے زیادہ طاقتور ( عالمی اسٹیبلشمنٹ ) کی جانب سے کوئی اشارہ ہوا ہے یا پھر ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ چند سیاسی کردار پاکستان پر اسکی 73 سالہ بلا شرکت غیر حکمرانی اور گرفت کو کمزور کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں ، یعنی سڑکوں پر احتجاج کرکے یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے تمام وسائل اور اختیارات پر قبضے کیخلاف عوامی آگاہی مہم چلا کر اس کی ساکھ کے ساتھ رعب دبدبے کو مجروح کیا جاسکتا ہے ۔ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ کٹھ پتلی نظام میں پی ٹی آئی حکومت کو کب تک استعمال کئے جانے کا ارادہ ہے۔ جس طرح جنرل مشرف کو ق لیگ خوب سوٹ کرتی تھی ۔ موجودہ اصلی حکمرانوں کو پی ٹی آئی اس سے بھی زیادہ راس آئی ہوئی ہے ۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر ایک اہم مشیر نے ، اسٹیبلشمنٹ نے ہی کابینہ میں شامل کرایا تھا بڑے اعتماد سے بتایا تھا کہ چھ سال تو ایسے پورے ہوگئے ۔ ان کے بعد فلاں افسر آرمی چیف بنیں گے پھر وہ بھی تین سال مکمل ہونے کے بعد اسی طرح توسیع لے کر چھ سال نکالیں گے ۔ یعنی منصوبہ تو واقعی کافی لمبا ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ اس پر من و عن عمل درآمد بھی ہو جائے گا ۔ اس دوران کہیں یہ فیصلہ ہوگیا کہ نظام کا سیاسی چہرہ بدلنا ہے تو اس کیلئے بظاہر پیپلز پارٹی ’’ معقول ‘‘ آپشن دکھائی دیتی ہے کیونکہ ن لیگ پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ۔ یا یوں کہہ لیں اسٹیبلشمنٹ کی موجودہ قیادت یہ رسک نہیں لینا چاہے گی ۔ تو پھر کیا مذاکرات اور رابطے محض وقت گزاری کیلئے ہو رہے ہیں ۔ شاید ایسا بھی نہیں ۔ عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کو اگلے حکومتی سیٹ اپ میں بھی حصہ دیا جائے ۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے اسٹیبلشمنٹ کیلئے کام کرنے والے کئی میڈیا پرسنز یہ کہہ رہے ہیں کہ اگلی بار پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت نہیں دی جائے گی ۔ اگرایسا ہے تو وفاقی حکومت دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کیا مرکز اور ایک دو صوبوں میں صرف جزوی حصہ دینے کا پلان ہے ۔ آصف زرداری نے جس لب و لہجے میں اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی بات کی اس سے غصہ جھلک رہا ہے ۔ یوں لگا جیسے آصف زرداری کسی کو اپنی اہمیت سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دوسری جانب نواز شریف سے رابطے کی بات بھی درست ہے مگر ان کی واپسی کا انحصار ٹھوس گارنٹی پر ہے اور نظر نہیں آرہا کہ ملک کے اندر کوئی شخصیت یا ادارہ اس قسم کی ضمانت دے سکے ۔ یہ بھی سچ ہے نواز شریف تمام عمر باہر نہیں بیٹھ سکتے ۔ عام انتخابات کا ماحول بنتا نظر آیا تو انہیں اپنی سیاست اور ووٹ بنک بچانے کیلئے یہ خطرہ مول لینا پڑے گا ۔ ان دنوں جس ڈیل کی باتیں چل رہی ہیں ، فریقین اسکی شرائط کے حوالے سے متفق نظر نہیں آتے ۔ میڈیا اور بعض لیگی رہنمائوں کی وجہ سے یہ بات ضرورت سے زیادہ موضوع بحث بن گئی۔ مگر اس میں بھی کئی مغالطے ہیں ۔ ایک باخبر صحافی نے ٹویٹ میں لکھ دیا کہ ڈی جی نیب لاہور کو اسی لئے تبدیل کیا گیا ہے تاکہ نواز شریف کو ریلیف دیا جا سکے۔ یہ بات ہرگز درست نہیں۔ ڈی جی نیب کوئی بھی ہو اسے حکومت نہیں بلکہ حکومت کو لانے والے چلاتے ہیں۔ نیا پرانا کوئی افسر کچھ معنی نہیں رکھتا۔ موجودہ سیاسی بندوبست کو واقعی لپیٹا جانا مقصود ہو گا تو اس کی سب سے بڑی نشانی یہی ہو گی کہ ایم کیو ایم، ق لیگ، جی ڈی اے، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) سمیت تمام اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے۔ خود پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں بدترین بغاوت ہو جائے گی۔ یہ سب صرف ایک اشارے پر ہو گا۔ بظاہر لگتا نہیں کہ وہ وقت آ گیا ہے مگر ہماری تاریخ گواہ ہے یہاں وقت بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ڈیل ہو یا این آر او، یہ کسی کا کسی دوسرے پر احسان نہیں ہوتا، حالات کا جبر یا بیرونی دباؤ فریقین کو سمجھوتا کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ ورنہ اسٹیبلشمنٹ کا بس چلے تو اپنے تمام مخالفین بالخصوص پاپولر لیڈروں کا وجود ہی مٹا ڈالے۔ عام تاثر کے برعکس اگر واقعتا کوئی مخصوص ایجنڈا نہ ہو عالمی طاقتیں کسی بھی ملک کو ایک خاص حد سے زیادہ عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیتیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی ملک خواہ کتنے ہی بدترین مالی بحران سے دوچار ہو جائے اسے قانونی طور پر دیوالیہ قرار دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایسا ہو جائے تو پھر اس ملک کے بیرون ملک تمام اثاثے ضبط کرنے کے علاوہ کئی طرح کی پابندیاں بھی لگانا پڑتی ہیں۔ اس طرح اس ملک کی سالمیت کیلئے شدید خطرات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سو عالمی اسٹیبلشمنٹ کبھی حکومتیں بدل کر اور کبھی اپنے ایجنٹوں کی گرتی ہوئی ساکھ دیکھ کر انہیں مدد فراہم کرنے کیلئے مقبول سیاسی لیڈروں سے رابطے کرا دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ غیر معمولی طور پر مؤثر اور انتہائی طاقتور ہوتی ہے جس کے سامنے ضد یا علانیہ انحراف کی جسارت کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان میں کچھ نہ کچھ ہو تو ضرور رہا ہے مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ گارنٹرز کس قسم کا سمجھوتا کرانا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ طے پا بھی گیا ہو۔ فرض کریں ایسا ہی ہے تو جان لیں پھر وہی منحوس چکر شروع ہونے کو ہے۔ پاپولر لیڈر کی قیادت میں جمہوری حکومت کا قیام، کچھ عرصے بعد اسکے خلاف سازشیں، عدالتوں، میڈیا اور دیگر اداروں کا استعمال، پھر کوئی 12 اکتوبر 1999 یا 2018 جیسے انتخابات۔ جو ہم میں سے نہیں، انہیں بھلا پاکستان میں آئین کی بالادستی، قانون کی حاکمیت اور سب کے یکساں احتساب کے معاملات سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔