کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر

کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر

سیانے کہتے ہیں کہ بیکار سے بیگار بھلی کہ انسان کچھ کر تا نظر تو آتا ہے۔ حکومت نے معاشی میدان میں بعد از خرابی بسیار کے کچھ بہتر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ ظاہر کا لفظ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ حکومت جو کرنے جا رہی ہے اس کا اطلاق 2جنوری سے ہو گا چونکہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اس لئے حکومت یا سٹیٹ بنک کہہ لیں اس کی جانب سے جو نوٹیفیکیشن جاری ہوا ہے اس کے عملی طور پر خدو خال کیسے ہوتے ہیں اور اس کا اطلاق کیسے ہوتا ہے یہ اس کے مکمل عملدرآمد کے بعد ہی پتا چلے گا لیکن اس سے پہلے کہ اس نوٹیفیکیشن پر بات کریں پہلے کچھ درآمدی طریقہ کار کے حوالے سے قارئین کو بتا دیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ ایک زمانہ تھا اور یہ 80کی دہائی کی بات ہے کہ درآمدی کاروبار کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ ہمارے بیوروکریسی کے بابوں کی انتہائی احمقانہ پالیسیوں کی وجہ سے حد سے زیادہ مشکل بنا دیا گیا تھا اور جو بھی چیز کسی نے درآمد کرنا ہوتی تھی تو اس کے لئے باقاعدہ لائسنس بنوانا پڑتا تھا جو بنک سے بنتا تھا اور اس پر جس چیز کی جتنی مقدار میں اجازت ہوتی تھی اسی حساب سے مال منگوایا جاتا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر ملکی مفاد کے خلاف جو قانون تھا اور آج کی نوجوان نسل اور جو کاروباری حضرات نہیں ہیں ان کے لئے یقینا حیرت کی بات ہو گی کہ آج ہم ایک ایک ڈالر کے لئے کبھی آئی ایم ایف اور کبھی کسی کے سامنے اور کبھی کسی کے پاس جا کر ترلے منتیں کرتے ہیں لیکن ایک دور تھا 1991تک بیرون ملک سے آنے والے پاکستانیوں کے لئے فارن کرنسی لانا خلاف قانون تھا۔ اندازہ کریں کہ اس سے بڑھ کر کوئی حماقت ہو سکتی ہے کہ اگر کوئی بیرون ملک سے ڈالر یا کوئی اور کرنسی پاکستان لانا چاہتا تھاتو اسے اس کی اجازت نہیں تھی خیر اس کے بعد 80کی دہائی کے آخر میں شاید 1988یا 89میں لائسنس کی پابندی ختم ہوئی اور فری تجارت شروع ہوئی۔اس وقت سے لے کر چند سال پہلے تک کاروباری برادری بیرون ملک سے جو بھی مال منگواتی تھی اس کی ادائیگی سے حکومت کا یا سٹیٹ بنک کا کوئی لینا دینا نہیں تھا اور مال درآمد کرنے والا شخص اپنے طور پر پیسے جو عموماً ڈالر کی شکل میں ہوتے تھے وہ خود اپنے طور پر انتظام کر کے بھیجتا تھا لیکن درآمدی کاغذات 
جسے بل آف انٹری کہتے تھے اس کی ایکسچینج کنٹرول کاپی بنک کے ریکارڈ میں جمع کرانا لازم تھا اور اس کے مطابق بیرون ملک ادائیگی کا ریکارڈ بھی بنک کو دیا جاتا تھا ہاں البتہ بڑے درآمد کنندگان اور انڈسٹریل سیکٹر یا جو بھی ایل سی یعنی لیٹر آف کریڈٹ کے ذریعے مال منگواتا اسے اپنی رقم بنک کے ذریعے ہی بھیجنا پڑتی تھی اور اب بھی وہی طریقہ کار ہے لیکن پھر چند سال پہلے کاروبار اور درآمد کو دستاویزی شکل دینے اور خاص طور پر انڈر انوائسنگ کے خاتمہ کے لئے حکومت نے کہا کہ بیرون ملک سے جو بھی مال آئے گا اس کی ادائیگی بنک کے ذریعے ہو گی اور اس درآمدی مال کی تمام دستاویزات بنک میں آئیں گی اور رقم جو کہ ڈالروں میں ہوتی تھی وہ تو سٹیٹ بنک کرتا تھا لیکن مال درآمد کرنے والا جس دن اپنے کاغذات بنک سے لیتا اس دن کے ڈالر ریٹ سے روپوں میں ادائیگی کر دیتا۔ اس طرح حکومت کو سالانہ کئی ارب ڈالر صرف درآمد کی مد میں ادا کرنا پڑتے تھے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران جب ملک کی معاشی حالت بگڑنے لگی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوتی چلی گئی تو حکومت کے لئے درآمد کندگان کے مال کے ادائیگی کرنا مشکل ہو گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں کی تعداد میں کنٹینر کراچی بندر گاہ پر آ کر رک گئے اس لئے کہ حکومت کے پاس ڈالر ہوتے تو وہ ان کی ادائیگی کرتی جس کے بعد بیرون ملک سے برآمد کرنے والابنیادی درآمدی دستاویزات جن میں بل آف لیڈنگ، انوائس اور پیکنگ لسٹ وغیرہ شامل ہیں وہ بنک کو بھیجتا تاکہ مال درآمد کرنے والا بنک سے اصل ڈاکومنٹس لے کر شپنگ کمپنی سے ڈلیوری آرڈر لے کر کسٹم سے مال کی کلیئرنس کا کام شروع کر سکے لیکن ہوا یہ کہ جب حکومت کے پاس ڈالر کی کمی ہوئی تو ایک طرف تو درآمد کندگان کو مال بندر گاہ پر رکنے کی وجہ سے بھاری جرمانوں کی شکل میں ادائیگی کرنا پڑی اور یہ دو طرفہ ادائیگی تھی ایک کراچی پورٹ ٹرسٹ یا جس کے شیڈ(گودام) میں بھی مال پڑا ہوتا تھا اور دوسرا جس کمپنی کا کنٹینر ہوتا تھا اس کو بھی فی دن کے حساب سے بیس فٹ کنٹینر پر کچھ روز کے بعد 50ڈالر روزانہ اور چالیس فٹ کنٹینر پر100ڈالر سے زائد روزانہ کنٹینر ڈیٹینشن کی شکل میں ادا کرنا پڑتے جو کاروباری برادری کی کمر توڑ رہے تھے۔
تمہید کچھ ضرورت سے زیادہ لمبی ہو گئی اور اس پر مزید ستم یہ کہ انتہائی بور بھی ہے لیکن اب بات کرتے ہیں کہ کالم کے شروع میں جس حکومتی نوٹیفیکیشن کا ذکر کیا ہے۔ اس میں کچھ واضح نہیں ہے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ حکومت معیشت کی نازک صورت حال کے پیش نظر درآمدی اشیاء کی ادائیگی کے لئے ڈالر کے بندوبست کی ذمہ داری پہلے کی طرح ایک مرتبہ پھر درآمد کنندگان پر ڈال رہی ہے اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ ایک احسن اور خوش آئند اقدام ہو گا اور اس سے معیشت کو سہارا دینے میں بڑی مدد ملے گی اس لئے کہ حکومت کو درآمدی بل کی مد میں سالانہ اربوں ڈالر جو دینا پڑتے ہیں اور جس سے ادائیگیوں کے توازن میں فرق پڑتا ہے اس میں بڑا فرق پڑے گا اور اس وقت ہزاروں کنٹینر جن کی کلیئرنس حکومت کے پاس ڈالر کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی کئی مہینے کراچی پورٹ پر رک کر ہو رہی ہے اس میں بہتری آئے گا اور ملک میں کاروباری سرگرمیاں اور خاص طور پر انڈسٹری کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا بھی ازالہ ممکن ہو سکے گا۔اس کے علاوہ اسی نوٹیفیکیشن میں ڈالر کی کمی کا ایک حل یہ بھی نکالا گیا ہے کہ فوری نقد ادائیگی کے بجائے 90دن کے بعد ادائیگی پر بنک سے کاغذات لے کر درآمدی مال کلیئر کرایا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک وقتی حل تو ہے لیکن تین ماہ بعد پھر یہی مشکل کھڑی ہو جائے گی تو اگر ڈالر کی ادائیگی امپورٹر کے ذمہ لگا دی جائے تو یہ ایک بہتر حل ہو گا۔ اس پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ تو منی لانڈرنگ ہو جائے گی لیکن ہمارے خیال میں اول تو منی لانڈرنگ کا اصل ہدف دہشت گردی کے حوالے سے ہے دوسرا جو ڈالر بھی باہر بھیجا جائے تو اس کے ذرائع کے ساتھ امپورٹر سارا ریکارڈ بنک میں جمع کرائے اور تیسرا جو حالت ہماری معیشت کی ہو چکی ہے کہ ہر لمحہ دیوالیہ ہونے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں تو اس میں اگر آئی ایم ایف ہماری ناک کی لکیریں نکلوا رہا ہے کوئی دوست ملک بھی مدد کو نہیں آ رہا تو اگر کسی نامعلوم ملکی مفاد کی خاطر ہم ستر ہزار پاکستانی مروا سکتے ہیں اور معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا ٹیکہ لگ سکتا ہے تومعیشت کی بہتری کے لئے اگر ہماری جانب سے بھی کچھ اگر مگر ہو جائے گا تو قیامت نہیں آ جائے گی۔