قومی سلامتی اور درپیش چیلنجز

قومی سلامتی اور درپیش چیلنجز

پاکستان کی جمہوری و سیاسی صورتحال میں عدم استحکام ایک عرصے سے چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بے شمار مسائل درپیش ہیں جن کا احساس تو بہت ہے تمام سیاسی جماعتوں سے لیڈران کو مگر صرف لفاظی یا تقاریر کی حد تک ہی محدود ہے۔پچھلے کچھ عرصے سے میں دیکھ رہی ہوں کہ پہلے تو تمام سیاسی لیڈرز ہی جب ڈی سیٹ ہوتے رہے ہیں تو وہ ہی کبھی عدالت کے خلاف تقاریر کرتے ہیں تو کبھی ہمارے سب سے اہم ادارہ آرمی کے خلاف بولنے اور عوام کو اُکسانے سے دریغ نہیں کرتے جس کا نتیجہ یہ تھا کہ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پہ میری نگاہ میں ایسی کئی ویڈیوز گزری جس میں ہمارے اہم ادارے آرمی کی تذلیل اور جنرل باجوہ کے خلاف عام عوام نے بھی عجیب عجیب کمنٹ کئے۔
اس بات کا مجھے تو بے حد افسوس ہوا۔ میں اپنے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر یہ کیوں بھول جاتے ہیں اگر ملک میں کوئی قدرتی آفت،زلزلہ، سیلاب،یا کوئی بیماری،یا پھر دہشت گردی،یا سکیورٹی مسائل کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسی ادارے یعنی پاک آرمی کو ہی یاد کیا جاتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عدالت کسی سیاسی لیڈر کے حق میں فیصلہ دے تو وہ پھر ان سیاسی لیڈرز کی نگاہ میں مقدس عدالت کہلائے گی اور اگر کسی سیاسی لیڈر کے خلاف فیصلہ آجائے گا تو وہی سیاسی لیڈر سمیت پوری جماعت عدالت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوگی۔
اسی طرح مزید جو دیکھنے میں آیا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کے خلاف سب سے پہلے عدم استحکام کے بعد عمران خان نے مختلف طریقوں سے مخالفت کی اور پھر آہستہ آہستہ عام عوام میں بھی تنقید کرنے کا حوصلہ پیدا ہونا شروع ہوا۔کیا یہی ہمارا ظرف ہے؟کہ ہم اپنے ہی اداروں کو کھوکھلا کرنے پہ لگے ہیں۔
ابھی پاکستان میں ایک بار پھر سے دہشت گردی سر اُٹھا رہی ہے۔جہاں ملک پاکستان کو پہلے سے ہی مہنگائی،بے روزگاری، معیشت کی بدحالی جیسے درپیش مسائل کا سامنا ہے وہاں اب ایک بار پھر سے سکیورٹی خدشات جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ حالیہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے ارادلی میں دہشتگردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے تین اہلکار شہید ہوگئے جبکہ دہشت گرد بھی اس جھڑپ میں مارے گئے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہیے،کیونکہ پہلے ہی پاکستان کی صورتحال سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معاشی بدحالی کا شکار ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کوئی بھی انویسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے نتیجتاً ہماری معاشی صورتحال، سٹاک ایکسچینج اور ملکی کرنسی بری طرح متاثر ہو رہی ہے صرف عدم توجہی اور سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کی وجہ سے آئے روز ملک مسائل میں گھرتا چلا جا رہا ہے۔
اسلام آباد میں خودکش دھماکہ،کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں میں بم حملے،جنوبی وزیرستان میں وانا کے پولیس سٹیشن پر مسلح دہشت گردوں کا حملہ اور اس سے قبل بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے کمپلیکس میں دہشتگردوں کا اہلکاروں کو یرغمال بنا لینا،اس کے علاوہ حالیہ عرصے میں پیش آنے والے یہ واقعات جو دہشت گردی بڑھنے کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی اصل وجہ جو دکھائی دے رہی ہے وہ یہ کہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو فوجوں کے انخلا اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد توقع تو یہ تھی کہ وہاں سے پاکستان پر دہشت گردوں کے حملے رک جائیں گے اور دونوں ممالک کے عوام کو امن و سکون سے زندگی گزارنے کا موقع ملے گا مگر عملاً ہوا یہ کہ نہ صرف تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے پاکستان آنا شروع کر دیا اور موقع ملتے ہی بلوچستان، خیبر پختونخوا حتیٰ کہ پنجاب اور سندھ میں بھی تخریبی سر گرمیاں شروع ہو گئیں، یہی نہیں بلکہ خود افغان فوج نے بھی جو کہ طالبان کے ماتحت ہیں سرحد پار سے حفاظتی باڑ توڑتے ہوئے پاکستانی علاقے میں فائرنگ اور گولہ باری کرکے کئی شہریوں کو شہید اور زخمی کر دیا۔
یہ سب ہو جانے کے بعد پاکستان کی حکومت اور مسلح افواج نے تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کابل حکومت کو اُس کی ذمہ داریاں یاد دلائیں اور اشتعال انگیزی سے باز آنے پرزور دیا،مگر اسلام آباد میں خودکش حملے کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ افغان قیادت ٹی ٹی پی کو بزدلانہ کارروائیوں سے روکنے کی کوششوں میں مخلص نہیں ہے اور پاکستان میں افراتفری اور بد امنی کا ویسا ہی ماحول چاہتی ہے جیسا افغانستان میں ہے۔اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے بدھ کو وفاقی کابینہ کے علاوہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں بھی ملک میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی سرکوبی کیلئے سخت اقدامات اُٹھانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔ 
اگر ہم ماضی اور حقائق کو دیکھیں تو پاکستان نے پہلے ہی بڑی قربانیوں کے بعد دہشت گردی سے نجات حاصل کرکے امن قائم کیا جس میں پاک آرمی کا ہی کردار رہا ہے۔افغانستان کی سر زمین سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے۔پاکستان نے ہر دور میں افغانستان کو ایک ہمسایہ برادر اسلامی ملک سمجھتے ہوئے اس کی ہمیشہ ہر طرح سے مدد کی۔روس امریکہ کے افغانستان پر حملوں کے وقت چالیس لاکھ سے زائد افغانوں نے پاکستان میں پناہ لی جن کی ہر طرح سے مدد اور حفاظت کی گئی۔اس وقت بھی جب طالبان حکومت کو کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے مگر پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہ صرف خود اس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ اس نے باقی عالمی سطح پر بھی افغانوں کے مسائل اور مشکلات دور کرنے میں مدد دینے کے لئے ہر فورم پر آواز اُٹھائی ہے۔ ایسے میں کابل کی طالبان حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کی شکر گزاری کرے لیکن اس کے برعکس وہ دہشت گردی سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ضروری ہے کہ کابل حکومت اپنی سرحدوں سے پاکستان میں دہشت گردوں کا داخلہ روکے اور پاکستان نے جو افغانستان کے ساتھ آج تک ہمدردیاں کی ہیں اس کے جواب میں وہ پاکستان میں امن رہنے دے۔
پاکستانی قوم یاد رکھے کہ آج ایک بار پھر سر اُٹھاتی دہشت گردی کو کُچلنے کے لیے پاک آرمی ہی پیش پیش ہے سیاستدان نہیں لہٰذا ہماری پاک آرمی کی قربانیوں کو ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے اُن کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں پاک آرمی زندہ باد۔