پانامہ کیس: وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل چانس لے رہے ہیں ، یہ بہت بڑا جواء ہے،جسٹس آصف کھوسہ

پانامہ کیس: وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل چانس لے رہے ہیں ، یہ بہت بڑا جواء ہے،جسٹس آصف کھوسہ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت کے دوران پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل چانس لے رہے ہیں کہ عدالت کیا کر سکتی یہ بہت بڑا جواء ہے، آج عدالت سے کہہ دیں جو کرنا ہے کر لے، عدالت نے سوال کیا کہ1993 سے 96 میں لندن فلیٹس کا مالک کون تھا اور لندن فلیٹس کیلئے سرمایہ کہاں سے آیا۔ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے؟ حمد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے؟ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی، بڑے گہرے تعلقات تھے۔علاوہ زیںنیب نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر مل ریفرنس میں اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ پیش کردیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ایسے مقدمات بہت ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا 75فیصد حصص کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی؟ کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی ؟ کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی،جسٹس آصف کھوسہ نے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک ریمارکس میں کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی اور میرے ریمارکس پر محترم رکن اسمبلی نے بہت ڈانٹا،ہمیں ڈانٹا بھی گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور ہمیں نظر نہیں آ رہے ،غلطی ہو سکتی ہے کہ ہمیں نظر نہ آیا ہو۔

 جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم 5رکنی بینچ کے روبرو کیس کی سماعت شرو ع ہوئی تو پراسیکیوٹرجنرل نیب وقاص ڈار نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہ کرنے کا ریکارڈ پیش کیا جس میں اس اجلاس کی کاروائی کے منٹس بھی شامل ہیں جس میں منی لانڈرنگ کے مقدمہ کے مبینہ ملزم موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو معافی دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔جس پر 5رکنی بینچ میں شامل جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی جس پر پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ ایسے لاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایسے مقدمات بہت ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس پہلو کو زیر غور لائیں گے جب نیب کی باری آئے گی ۔ وقاص ڈار نے جواب دیا کہ پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی اور چیئرمین نیب نے تجویز سے اتفاق کیا ۔

اس موقع پرحسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 75فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والی 21ملین درہم کی رقم قرض کی مد میں ادا کی گئی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا 75فیصد حصص کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی ؟ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے ؟اور یہ بھی بتایا جائے کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا ؟وکیل نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔ریکارڈ سے ثابت ہے فیکٹری کی فروخت سے 12ملین درہم ملے، کاروبار پر کنٹرول میاںشریف کا تھا ۔ طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے۔وہ صرف 12 ملین درہم کی رقم سرمایہ کاری کیلئے الثانی فیملی کو دینے کے گواہ تھے ۔

بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ وزیرا عظم کی تقریر میں بھٹو دور میں 6نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے۔ جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ جب پاکستان میں 6نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھے ؟وزیرا عظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ۔سلمان اکرم راجہ نے موقف اپنایا کہ دبئی مل ایک حقیقت ہے طارق شفیع کو بیان حلفی سے پہلے تمام تفصیلات معلوم تھیں ، طارق شفیع کو گواہ کے طور پر بلائیں ، طارق شفیع سے سارے سوال پوچھیں جو آپ کے ذہن میں ہیں ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی ؟وکیل نے جواب دیا کہ جدہ مل دبئی فیکٹری کی مشینری سے تیار کی گئی ۔دبئی سٹیل مل اہلی خاندان نے 2001میں بند کی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مشینری کی خریدوفروخت کا وزیر اعظم نے کہیں ذکر نہیں کیا ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کے بعد دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی مگر سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہا سے آیا ۔5نومبر کو قطری کا خط آیا اور 12نومبر کو طارق شفیع کا بیان حلفی آیا ۔طارق شفیع کو قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکر کر دیتے جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ 7نومبر کے تحریری جواب میں دبئی فیکٹری کے 12ملین درہم کی سرمایہ کاری کا ذکر ہے۔ معاملے میں قطری شاہی خاندان شامل تھا اس لیے 7نومبر کے جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا ۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ حسین نواز کے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے ۔جسٹس آصف کھوسہ نے خواجہ سعد رفیق کا نام لیے بغیر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک ریمارکس میں کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی اور میرے ریمارکس پر محترم رکن اسمبلی نے بہت ڈانٹاہمیں ڈانٹا بھی گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور ہمیں نظر نہیں آ رہے ،غلطی ہو سکتی ہے کہ ہمیں نظر نہ آیا ہو،جسٹس اعجاز افضل خان نے سوال کیا کہ کیا یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ معاملے میں قطری شاہی خاندان شامل تھا اس لیے 7 نومبر کے جواب میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا۔جب جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ سوالات اٹھائے کہ 5 نومبر کو قطری آیا 12 نومبر کو طارق شفیع کا بیان حلفی آیالیکن سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا کیونکہ حسین نواز کے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے.

وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں تھا،سلمان اکرم نے کہا کیا ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرائل ہو رہا ہے۔طارق شفیع کو کٹہرے میں بلا کر کر سوالات پوچہ لیے جائیں۔سلمان اکرم نے کہاکہ قطری خاندان کی رضا مندی کے بعد قطر سرمایہ کاری کا موقف سامنے لایا گیا، اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ فیکٹری کی رقم کے 12 ملین درہم کیسے ملے. طارق شفیع جانتے تھے،جسٹس گلزارنے کہاکہ 12 ملین درہم کیسے ملے یہ نظر نہیں آ رہااس موقع پرس عظمت سعیدنے کہاکہ فیکٹری کی فروخت کا معاہدہ موجود ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ 12 ملین درہم ملے۔جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ بارہ ملین درہم کی رقم نقد وصول کی تھی یا بنک کے ذریعے ؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ اپنے بیان حلفی میں طارق شفیع نے اس حوالے سے تفصیل بیان نہیں کی،۔ان کا کہنا تھا کہ جو سوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطور گواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں تاہم ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں،ان کا کہنا تھا کہ بارہ ہزار درہم کی رقم الثانی فیملی کو چھ اقساط میں سرمایہ کاری کے لیے دی گئی،اوربڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم میری ان دو کتابوں سے زیادہ نہیں ہو گا۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے، سلمان اکرم نے کہاکہ شریف فیملی کا جہاز کراچی بندرگاہ روک لیا گیا جس سے 50 کروڑ کا نقصان ہواانہوں نے کہا کہ شریف خاندان نے 1993 سے 1996 میں لندن کے فلیٹس نہیں خریدے۔لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے،جسٹس گلزار نے سوال اٹھایا کہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے توسلمان اکرم نے کہاکہ یہ کوئی راز نہیںہے شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسارکیا کہ 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا،سلمان اکرم نے جواب دیا کہ شریف خاندان اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھا۔شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے۔ 12 ملین روپے کی رقم ریکارڈ میں ثابت ہے دیکھ لیں. سلمان اکرم نے مزید کہا کہ یہاں جرح یا ٹرائل نہیں ہو رہا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے یہ غیر متنازع حقائق ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے. لیکن 12 ملین درہم کیش میں کیسے لے لیے،سلمان اکرن نے کہا یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں. نقد رقم بھی لی جاتی ہے،جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ پانامہ کا مقدمہ اپنی نوعیت کا کیس ہے لیکن جو دستاویز لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔سلمان اکرم راجانے کہا کہ 12 ملین درہم اونٹوں پر لیجانے کی بات کی گئی۔1980 میں دبئی میں 1000 درہم کا نوٹ موجود تھایہ اتنی بڑی رقم نہیں کہ اونٹوں پر لے جائی جاتی۔ 2006سے پہلے کمپنیوں کے بیرئر سرٹیفیکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے اوررحمان ملک رپورٹ کے مطابق 93 میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں،جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ وہ رپورٹ کو تسلیم نہیں کررہے،عدالت میں رپورٹ آئی تو اس کاذکر کیاانہوں نے کہاکہ التھانی خاندان نے 1993سے 1996میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے،جسٹس آصف کھوسہ نے جب یہ پوچھا کہ حماد بن جاسم نے یہ فلیٹس کب خریدے تو سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ حماد بن جاسم سے پوچہ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے لیکن یہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے،جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیاکہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیاکہ حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993میں ان فلیٹس میں حسن حسین رہتے تھے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی بڑے گہرے تعلقات تھے،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتاتھااورالثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں۔عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے۔انہوں نے کہاکہ لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے۔شیزی نقوی نے رحمان ملک رپورٹ کی بنیاد پر فلیٹس کی ملکیت شریف خاندان کی بتائی۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ کیا شیزی نقوی پاکستانی شہری ہے۔سلمان اکرم نے جواب دیا کہ شیزی نقوی پاکستانی ہے اور ابہی تک التوفیق کمپنی کے ساتھ وابستہ ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کیا شیزی نقوی کے بیان حلفی کی نقل کاپی موجود ہے،نقل موجود ہے۔تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے جمع نہیں کی۔جسٹس عظمت نے کہا کہ شیزی نقوی کی برطانوی عدالت میں دی گئی بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں. سلمان اکرم نے کہا کہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان حلفی پر فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا،جسٹس عظمت نے کہا کہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا۔کیا دوسری پارٹی کی عدم موجودگی پر یہ حکم دیا گیا،سلمان اکرم نے کہا کہ التوفیق کمنی کے واجبات 34 ملین ڈلر کے نہیں تھے،جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیاکہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا.سلمان اکرم نے کہا کہ التوفیق کیس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے۔آپ 13 سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی سلمان اکرم نے کہا کہ انگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ یقیننا آپ نے قدموں پر کھڑے ہونا ہے گھٹنوں پر نہیں۔جسٹس گلزار نے کہاکہ آپ کس کپیسٹی میں لندن فلیٹ پر قابض ہوئے ۔سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ شاہی خان کے دوست کے طور پر 1993 میں تعلیم کی غرض سے رہائش پذیر ہوئے۔بعد میں یہ فلیٹس کاروباری معاہدے کے نتیجے میں قطریوں نے یہ فلیٹس ہمارے حوالے کئے ۔جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں ہورہا نیلسن اور نیسکول کس کی تھیں ۔کیا آپ حامد بن جاسم سے فلیٹس اور کمپنیوں سے متعلق پوچھ سکتے ہیں ۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں اسی لئے عدالت میں وضاحت کررہا ہوں ۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ وضاحت ضرور کریں یہ ضروری نہیں عدالت آپکی وضاحت قبول کرے ،سلما ن اکرم نے کہاکہ التوفیق کمنی نے 16 ملین ڈالر قرض کے لیے برطانوی عدالت میں مقدمہ کیا. جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ قرض کی رقم 34 ملین ڈالرز تھیِ ۔سلمان اکرم نے کہا کہ 34 ملین ڈالرز قرض کا معاملہ نہیں تھا،جسٹس کھوسہ نے کہا کہ التوفیق کمپنی سے قرض کی سیٹلمنٹ حتمی طور پر کتنی رقم پر ہوئی.،سلمان اکرم نے کہا کہ 8 ملین ڈالرز قرض کی سیٹلمنٹ ہوئی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قرض کے لیے کیا گارنٹی دی گئی. سلمان اکرم نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز مل کے لیے قرض التوفیق کمپنی سے پاکستان میں لیا گیا،حدیبیہ مل کی مشینری کو بطور گارنٹی رکھاگیا۔جسٹس عظمت نے کہاکہ یہ تمام ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس بھی ہونا چاییے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ التوفیق کمپنی سے جب سیٹلمنٹ ہوئی کیا حسن حسین برطانیہ میں تھے،سلمان اکرم نے کہاکہ حسین نواز پاکستان میں حراست میں تھے۔حسین نواز کو سیٹلمٹ کا مکمل علم نہیں کیونکہ یہ 2000 کے آوائل میں ہوئی۔اکتوبر 1999 سے دسمبر 2000 تک پوری فیملی حراست میں تھی ،حسن نواز 1999 میں لندن میں تھے ،اس اس عرصے میں صرف میاں شریف رائیونڈ میں تھے،جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ جب ساری فیملی زیر حراست تھی تو 8 ملین ڈالرز کی رقم کیسے سے ادا کی گئی.مطلب یہ ہے کہ 8 ملین ڈالرز شریف فیملی نے ادا نہیں کیے. ۔سلمان اکرم نے کہاکہ اگر ادارے کچھ نہیں کر رہے تو یہ چیز عدالت کے راست میں رکاوٹ نہیں۔جسٹس آسف کھوسہ نے کہا کہ معاملہ اگر چیف ایگزیکٹو کا ہو تو کیا کیا جائے۔سلمان اکرم نے جواب دیا کہ چیف ایگزیکٹو اداروں کے سربراہ کا تقرر اپوزیشن کی مشاورت کرتے ہیں ،عدالت اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔جسٹس عظمت سعیداگر آپ عدالت کو دائرہ سماعت پر واپس جانے کا کہیں گے تو میں اس کا حامی نہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ واپس جانے کو تیار نہیں آگے بڑہنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں ، سلمان اکرم نے کہا کہ میں تو صرف قانون پر عملدرآمد کا کہہ رہا ہوں۔عدالت 184/3 کے مقدمے میں سزا نہیں دے سکتی.فیصلوں میں موجود ہے کہ عدالت نے درست تحقیقات کو یقینی بنایا۔وزیراعظم کی تقریر کو دیکھنا ہے تو ریکارڈ کو سامنے رکہا جائے،کیا عدالت وزیراعظم کی تقریر اور ریکارڈ کو دیکھ کر نا اہلی کا فیصلہ کر سکتی ہے.جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ کیا عدالت شواہد ریکارڈ کیے بغیر اتنے سنجیدہ ایشو پر فیصلہ دے سکتی ہے.۔عدالت صرف غیر متنازعہ حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حقائق متنازعہ نہیں تہے اس لیے پرویز مشرف کے خلاف عدالت نے براہ راست فیصلہ دیا۔عمران خان نے عدالت میں کہہ دیا ہمارا کام الزام لگانا ہے۔دوسری جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا. ۔یہاں ٹرائل نہیں ریکارڈ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اگر حسین نواز کچھ چھپا رہے ہوں تو کیا اس کی سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟ دوسری طرد سے کوئی شواہد نہیں آئے. وزیراعظم کی تقریر کو مسترد نہیں کر سکتے،جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پہلے وکیل نے تقریر کو سیاسی کہا.مخدوم علی خان نے بہتر الفاظ استعمال کیے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ تقریر عمومی نوعیت کی تھی۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اگر نتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا.۔جان بوجہ کر چھپایا گیا تو پھرکیا کریں جبکہ حسین نواز کی نا اہلی عدالت سے نہیں مانگی گئی۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا جائیداد بچوں کی ہے ان سے پوچھیں۔مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں،اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں۔اگر عدالت کو کچھ نہیں بتانا اور کہیں کر لیں جو کرنا ہے۔یہ جوا نہیں کھیلوں گا۔سلمان اکرم کا کہنا تھا کہ جو معاملہ شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کی توقع نہ کی جائے،جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا 80 سے 85 برس کی عمر میں میاں شریف نے سرمایہ کاری سے متعلق اپنے بچوں کو آگاہ نہیں کیا تھا۔سرمایہ کاری کی رقم 20 سال قطر پڑی رہی۔کاروباری شراکت دار نے تفصیلات کیوں نہیں دیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ آپ بہت برا جوا کھیل رہے ہیںجاننا چاہتے ہیں میاں شریف کی رقم جو قطری رئیل سٹیٹ بزنس میں گئی کیا اس سے فلیٹ خریدے گئے ۔یا پھر ثانی فیملی نے مشترکہ کاروبار سے فلیٹ خریدے ۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس رقم میں میاں نواز شریف کا کوئی حصہ تھا ۔کیونکہ 2004 میں میاں شریف کی وفات ہوئی اور 2006میں فلیٹ منتقل ہوئے ۔جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ سلمان اکرم صاحب خدا کا خوف کرو کیوں مردہ لوگوں کو شہادت کے لئے لارہے ہو ۔کیا آپ کو قانون شہادت کا پتہ نہیں عدالت میں ایسے شہادتیں لائی جاتی ہیں ۔قطری شہزادہ خود مردہ لوگوں پر انحصار کررہا ہے ۔کیا ایسی شہادتیں عدالت میں لائی جاتی ہیں ۔کیا اب ہمیں مردے آکر بتائیں گے ۔

وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل دلائل دے رہے تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پرکیس کی سماعتکلتک ملتوی کردی گئی۔

مصنف کے بارے میں