چیئرمین ایچ۔ای۔سی ، جامعہ پنجاب میں

Dr Lubna Zaheer, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

 مئی 2018 میں اس وقت کی وفاقی حکومت نے ڈاکٹر طار ق بنوری کو ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان (HEC) کا چیئر مین تعینات کیا تھا۔ ایچ۔ای۔سی آرڈیننس کے مطابق، انہیں چار سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد مئی 2022 میں اس عہدے سے سبکدوش ہونا تھا۔ تاہم مارچ 2021 میںوفاقی حکومت نے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس میں ترمیم کی۔ اور کمیشن کے چیئرمین کی مدت ملازمت چار سال سے کم کر کے دو سال کر دی۔ حکومت نے اس نئے قانون کا اطلاق سابقہ تاریخ سے (retrospective)     کیا اور ڈاکٹر بنوری کو عہدے سے فار غ کر کے گھر بھیج دیا ۔اطلاعات کے مطابق حکومتی اور تعلیمی حلقوں کو ڈاکٹر بنوری سے کچھ شکایات تھیں۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے بھی ان کے خلاف تفتیش شروع کر رکھی تھی۔  ڈاکٹر بنوری نے حکومت کے اس فیصلے پر احتجاج کیا اور ہائیکورٹ جا پہنچے۔ کئی ماہ تک یہ کیس عدالت میں زیر سماعت رہا۔اب چند دن پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈاکٹر بنوری کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے ، انہیں کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر بحال کر دیا ہے۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ایک نہایت اہم قومی ادارہ ہے۔ ملک کی تمام سرکاری اور نجی جامعات کی نگرانی اس کے فرائض میں شامل ہے۔پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترویج، معیار تعلیم میں بہتری،اعلیٰ تعلیم سے متعلق پالیسی سازی، تعلیمی پالیسیوں کا نفاذ اور دیگر اہم فرائض کی ادائیگی کمیشن پر عائد ہوتی ہے۔ دس ماہ پہلے ، جس طرح راتوں رات اس اہم قومی ادارے کے سربراہ کو ہٹایا گیا، اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بالکل اس طرح جیسے کسی بر سر اقتدار حکومت کا بوریا بستر راتوں رات لپیٹنے کی تائید نہیں ہو سکتی۔ ہر حکومت اپنی آئینی مدت اقتدار مکمل کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اسی طرح قومی اداروں کے سربراہوں کو بھی طے کردہ مدت ملازمت مکمل کرنے کا حق حاصل ہے۔
چیئرمین ایچ۔ای۔سی کی سبکدوشی اور بحالی سے جڑی خبریں وقتا فوقتا میڈیا کی زینت بنتی رہیں۔ تاہم کسی نے اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ نہایت اہم قومی ادارے کے سربراہ کو توہین آمیز طریقے سے گھر بھیجنے پر دنیا بھر میں ہماری کس قدر جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ کسی نے یہ حساب بھی نہیں لگایا کہ دس ماہ تک اعلیٰ تعلیمی کمیشن جس طرح جز وقتی  (ad-hoc)  بنیادوں پر چلایا گیا،شعبہ تعلیم کو اس کا کس قدر نقصان ہوا۔ عدالت نے فی الحال مختصر فیصلہ جا ری کیا ہے۔ معلوم نہیں کہ اب ڈاکٹر بنوری چند ماہ بعد سبکدوش ہو جائیں گے یا عدالت تلافی کے طور پر ان کی معطلی کے دس مہینے انہیں لوٹانے کا حکم جاری کرتی ہے۔ ابھی تک یہ معمہ بھی حل نہیں ہو سکا کہ عدالت نے فقط ڈاکٹر بنوری کو ہٹانے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیا ہے یا چیئرمین ایچ ۔ای ۔سی کی مدت ملازمت میں دو سال کی کٹوتی کرنے کا قانون بھی کالعدم کر دیا ہے۔ امید ہے کہ تفصیلی فیصلے میں ان سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ 
 اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد، ڈاکٹر طارق بنوری دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں۔ چند دن پہلے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں مدعو کیا۔ مقصد یہ تھا کہ چیئرمین ایچ۔ای۔سی جامعہ پنجاب کے اساتذہ اور مختلف شعبوں کے سربراہان کو کمیشن کی پالیسیوں اور اپنے ویژن سے آگاہ کر سکیں۔ ساتھ ہی ساتھ اساتذہ کو درپیش مسائل بھی سن سکیں۔ یہ علمی نشست ،جامعہ پنجاب کے الرازی ہال میں کم و بیش دو گھنٹے تک جاری رہی۔ جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر نے دیگر سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔کم و بیش درجن بھر جامعات کے مرد اور خواتین سربراہان اس نشست میں موجود تھے۔ ڈاکٹر بنوری نے نہایت جامع انداز میں اساتذہ کو کمیشن کے اغراض و مقاصد اور اپنے منصوبوں سے آگاہ کیا۔اس نشست کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر بنوری کے خطاب کے بعد ، پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد نے ہال میں موجود اساتذہ کو ڈاکٹر بنوری سے سوالات کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اساتذہ نے بہت سے تنقیدی سوالات کئے اور کمیشن سے متعلق کچھ شکایات بھی ڈاکٹر بنوری کے گوش گزار کیں۔ 
ڈاکٹر طارق بنوری نے بتایا کہ 2018 میں یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے کمیشن کی بہت سی پالیسیوں کو تبدیل کیا۔ کمیشن میں مختلف عہدوں پر ہونے والی بھرتیوں اور تعیناتیوں سے متعلق پالیسی میں خصوصی طور پر تبدیلی لائے۔ پاکستان میں ناقص معیار تعلیم اور ناقص معیار تحقیق پر انہوں نے طویل گفتگو کی۔ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں تحقیق کا حال بہت خراب ہے۔لاتعداد تحقیقی رسالے  (research journals) موجود ہیں۔ ان میں بیشمار تحقیقی مضامین(research articles) چھپتے ہیں۔نہایت تاسف سے کہنے لگے کہ دنیا بھر میں جو تحقیق ہوتی ہے اس کے عملی اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہونے والی تحقیق بے اثر ہے۔ خواہ تحقیقی رسالے تعداد میں کم ہوں، مگر انہیں اثر انگیز (impactful)   ہوناچاہیے۔ ڈاکٹر صاحب بخوبی آگاہ تھے کہ بھاری رقوم کے عوض جرنلز میں ریسرچ پیپرز چھاپے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر بھی بے اطمینانی کا اظہار کیا کہ استاد کی ترقی کو دس ،پندرہ ریسرچ آرٹیکلز سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ 
 ڈاکٹر طارق بنوری کو پی۔ایچ۔ڈی کے ناقص معیار پر بھی نہایت تشویش ہے۔ کہنے لگے کہ اندھا دھند ڈگری بانٹنے کی پالیسی نے ہماری پی۔ایچ۔ڈی ڈگری کو رسوا (disgrace)  کیا ہے۔ انہوں نے بغیر منصوبہ بندی کے ڈگریاں بانٹنے کے عمل کو بھی قابل مذمت قرار دیا۔انہوں نے ایک نہایت اہم معاملے کی طرف توجہ دلائی ۔فرمایا کہ ہمارے ہاں تدریس / ٹیچنگ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ٹیچنگ کوالٹی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن برسوں سے بہترین استاد کا ایوارڈ بانٹتا ہے۔ کمیشن کو جو درخواستیں موصول ہوتی ہیں، ان میں بھی تحقیقی مضامین اور ملکی ،غیر ملکی کانفرنسوں وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے ،  استاد کی تدریس کا حوالہ نہیں ملتا ۔
ڈاکٹر بنوری نے پرائیویٹ بی۔اے اور ایم۔اے ختم کرنے کے اقدام کی بھی وضاحت کی۔ بتایا کہ نئی گریجوایٹ پالیسی اس سوچ کے تحت بنائی ہے کہ نوجوان محض ڈگری لینے کے بجائے، مختلف علوم سے آگاہ ہوں۔ مارکیٹ کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ہنرمند بنیں۔ ڈاکٹر صاحب نے احتساب کی اہمیت بھی بیان کی۔ لیکن اسے ایک نہایت مشکل عمل قرار دیا۔ ایک مثال بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا کہ کسی یونیورسٹی نے کمیشن کے آگے جوابدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ جب کمیشن نے دباو ڈالا تو اسلام آباد کے ایک اعلیٰ دفتر سے احکامات موصول ہوئے کہ متعلقہ یونیورسٹی سے کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔ کہنے لگے کہ ایسے میں کمیشن اور چیئرمین کیا کریں؟ 
حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر بنوری نے نہایت عمدگی سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل بھی قابل تحسین ہے کہ انہوں نے نہایت تحمل اور بردباری سے اساتذہ کے تیکھے سوالات اور تنقیدی تبصرے سنے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں ان دنوں وعظ و نصیحت کا موسم ہے۔ وزیر مشیر ہوں، پالیمنٹیرینز ہوں، صحافی ہوں، ٹی۔وی اینکرز ، یا دیگر نمایاں شخصیات، سب ہی پند و نصائح کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر بنوری کی گفتگو پر مغز سہی، لیکن اس میں بھی واعظانہ رنگ نمایاں تھا۔انہیں سن کر خیال آتا رہا کہ وہ مسائل جن کا ڈاکٹر صاحب کامل ادراک رکھتے ہیں، ان کے حل کے لئے انہوں نے بطور چیئرمین کیا کیا عملی اقدامات اٹھائے ہیں؟     (جاری ہے )

مصنف کے بارے میں