عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر رفیق اختر اور واصف علی واصف

عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر رفیق اختر اور واصف علی واصف

جناب شاکر شجاع آبادی کو …… 
میں جب عہد دوراں کا صوفی شاعر کہتا ہوں تو اس کے پیچھے ان کی وسعت خیالی ہوتی ہے۔ وہ دنیا، قرآن، مخلوق، پروردگار اور دکھ درد کی بات کرتا ہے تو سوچنے والے سوچتے ہیں داد دینے والے داد دیتے ہیں اور ڈر جانے والے دبک کے بیٹھ جاتے ہیں …… کلام میں گہرائی…… کیا کہنے ……
تو ڈیوا بال کے رکھ چا
ہوا جانے خدا جانے
پھر اک قطعہ ملاحظہ ہو ……
نصیب اپنا نہ ڈینہ ڈکھا وے
جو وقت شاکر چامونھ وٹاوے
شیطان کولوں میں آپ بچ ساں 
منافقاں تو خدا بچاوے
اک مشہور…… نظم ”میکو قبرستان داد کھ“…… اس نظم میں پاکستان کے غریب عوام کے دکھوں کی شا کر شجاع آبادی نے کمال محبت سے ترجمانی کی ہے اور اپنے انداز میں جذباتی کلام پیش کیا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ ہم نے نفرت کا وہ بیج بو دیا ہے کہ یہ قبرستان بنتا جارہا ہے۔ 
ہماری پرورش شہر لاہور میں ہوئی جہاں مذہبی تعصبات سے پہلے ہم سب بزرگوں کے مزاروں پربھی جاتے تھے۔ پوری عقیدت و محبت کے ساتھ محرم الحرام کے مہینے میں سنی شیعہ اِک ساتھ شہادت امام حسینؓ پر مجالس کا انتظام کرتے اور عجب یکجہتی کا منظر پیش ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر ایسا ایسا پر سکون وقت گزارا…… جو پرسکون ساعتیں وہاں میسر ہوئیں ان کے کیا کہنے …… ایک تقریب میں بہت عرصہ پہلے واصف علی واصف سے ملاقات ہوئی…… انگلش پڑھاتے ہوئے اور نہایت معتبر مدلل اور Soft انداز تھا ان کا۔ نوائے وقت میں بھی کبھی کالم لکھتے تھے…… میری جب بھی ملاقات ہوئی……”تو نہیں آیا ناں“!…… محبت سے تھوڑا مسکرا کر کہتے…… کبھی قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا۔ میں ادب سے پاس بیٹھ جاتا میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے…… لکھا کر…… یہ فنکاری ہے تیرے پاس لیکن سنا بھی کر…… میں کہاں اس دور میں سمجھ پاتا یہ اللہ والوں کی باتیں۔ اک دفعہ میں اک تقریب میں شرکت کے لیے ہال میں داخل ہوا تو نظر پڑ گئی…… مسکرا دئیے کوئی صاحب ساتھ بیٹھے تھے ان کو اٹھا کر مجھے بٹھا لیا…… ساتھ وہی محبت والا گلا…… ”تو نہیں آیا ناں“؟ انگلش میں بھی لکھا کر۔
”بابا جی یہ جو چند سطریں کھینچ لیتا ہوں یہ مجید نظامی صاحب کا خوف ہے یا عادت سی ہے ورنہ دنیا کے جھمیلے……؟ پھر مسکرا دیئے…… ”سرکار…… اپنے 
آرٹیکل کے آخر میں اپنا فون نمبر لکھ دیا کریں ……
”تیرے ”نوائے وقت“ کی شاید پالیسی نہیں ہے۔“ حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولے……
”سرکار پالیسی چھوڑیں …… میں مجید نظامی صاحب سے دست بستہ عرض کروں گا…… میں چاہتا ہوں لوگ آپ سے رابطہ میں آئیں …… بہت سے لوگ آپ سے اور نامور مفکر فاروقی صاحب سے ملنے کے خواہش مند ہیں۔ میں چند دن بعد جب حاضری کے لیے نظامی صاحب کے پاس گیا …… تو پھر وہی بات بولے ”حافظ…… اس (اک خاص عزیز کا نام لے کر بولے) کا خیال رکھا کر اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا پڑے گی ……؟
”سر…… آپ کے عزیز ہیں …… میری کیا مجال…… ”میں نے جواب دیا تو پھر بولے……گزرتے ہوئے آجایا کر…… تیرے پاس خبریں ہوتی ہیں“……؟
میں ہنس دیا……”باباجی ……وہ واصف علی واصف کی پبلک میں کافی ڈیمانڈ ہے آپ ان کے علمی مضامین Editional صفحہ پر محبت سے لگاتے ہیں …… ساتھ اگر ان کا فون نمبر بھی چھپ جایا کرے تو…… جو لوگ رابطہ چاہتے ہیں وہ ان سے رابطہ کریں …… ”نوائے وقت“ اک ذریعہ ہے عوام تک یہ علمی معاملات پہنچانے کا۔
”واصف صاحب سے کہہ دو…… چھپ جایا کرے گا فون نمبر۔“ آہستہ سے بولے……
 اک دن واصف صاحب ملے…… تو دور سے بولے…… ”تیری سازش کامیاب ہوگئی…… ”جی جی…… میں نے دیکھ لیا…… آپ کا فون نمبر آپ کے آرٹیکل کے ساتھ چھپا ہے۔“
 بہت سے لوگ رابطے میں آگئے…… مسکراتے ہوئے کہا۔
عطاء الحق قاسمی صاحب کا فون آیا……کچھ عرصہ پہلے۔ 
”مظفر صاحب…… سات بجے میرے گھر کھانا…… سات کا مطلب 7 ہی ہونا چاہیے“
 جی حاضری ہوگی سرکار!! میں نے جواب دیا اور پھر بولے عزیر احمد کو بھی ساتھ لیتے آنا…… اس نے کوئی مزاحیہ شاعری کی ہے۔ عزیر احمد کی شاعری ملاحظہ ہو ……
تیری باتوں میں چکنائی بہت ہے
کہ کم ہے دودھ بالائی بہت ہے
پولیس کیوں آپ منگوانے لگے ہیں 
ہمیں تو آپ کا بھائی بہت ہے
محبت کیوں محلے بھر سے کر لیں 
ہمیں تو بس ایک ہمسائی بہت ہے
نشہ ٹوٹا نہیں ہے مار کھا کر
کہ ہم نے پی ہے کم کھائی بہت ہے
اسی خاطر ہے چھوٹی ناک اپنی
کہ ہم نے ناک کٹوائی بہت ہے
میں ان میں جھانکنے سے ڈر رہا ہوں 
تیری آنکھوں میں گہرائی بہت ہے
نہ پھینکو بجلیوں پر بجلیاں تم
کہ ہم کو ایک انگڑائی بہت ہے
قاسمی صاحب کے ہاں ایسی محفلوں میں سب سے زیادہ لطیفے وہ خود سناتے ہیں گل نو خیز اختر …… فرخ شہباز وڑائچ…… وجاہت صاحب بھی لقمہ دیتے ہیں اور محفل کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔
اس محفل میں …… یا سر پیر زادہ بھی کمال گفتگو کرتے ہیں …… ان کے اندر بھی اک مزاح نگار موجود ہے میں نے بھانپ لیا ہے اور یہ میرے لیے خوشی کی بات ہے۔ لیکن کبھی کبھی ان کا لطیفہ غصے میں جاری ہوتا ہے…… لطیفہ بازی کے درمیان اچانک دو نئے چہروں نے ڈاکٹر محمد رفیق اختر کے بارے میں گفتگو چھیڑ دی…… ان میں سے اک صاحب کا خیال تھا کہ شاید یہ محفل صرف لطیفہ بازوں کی ہے…… حالانکہ یہ محفل تو بنیادی طور پر عالم فاضل لوگوں کی ہے…… ان کو لگا جیسے یہاں واصف علی واصف، ڈاکٹرمحمد رفیق اختر کو جاننے والے بہت کم ہیں ……؟!
پھر جو مائیک…… جناب عطاء الحق قاسمی صاحب کے ہاتھ میں آیا تو کہاں وہ چٹکلے ……کہاں گئے لطیفے ماحول سنجیدہ…… یہاں تک کہ میں نے گل نوخیز اختر کو گھبراہٹ کا شکار دیکھاتو ضیاء الحق نقشبندی نے بتایا کہ گل نوخیز اختر جب سنجیدہ ہو تو اس پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے اور اسے دوبارہ…… Active کرنے کے لیے گدگدی کا سہارا لینا پڑتا ہے…… یا کسی بے ہودہ جگت باز کی حاضری کرانا پڑتی ہے۔ 
عطاء صاحب نے بتایا کہ آخری ملازمت ڈاکٹر محمد رفیق اختر نے میرے ساتھ ایم۔ اے۔ او کالج لاہور میں کی۔ اک چھوٹے سے نقطے پر اختلاف ہوا اور انگلش کا یہ عالم فاضل استاد استعفیٰ دے کر چلا گیا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ یہ عالم فاضل لوگ چاہے یہ شاکر شجاع آبادی ہو …… استاد دامن ہو، عطاء الحق قاسمی ہو، واصف علی واصف ہو یا ڈاکٹر محمد رفیق اختر ہو…… یہ من موجی قسم کے لوگ ہوتے ہیں جب رو میں بہہ جائیں محبت کے پھول اِن کے لہجے میں دکھائی دیتے ہیں علم بکھیرتے ہیں تو ماحول سنجیدہ کر ڈالتے ہیں۔ عوام ایسے علم والوں کے ان کی زندگی میں بھی قدردان ہوتے ہیں اور یہ صدیوں بعد بھی لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں اعصاب پر سوار ہوتے ہیں۔
بادشاہا! تیرے اعصاب پے طاری میں تھی
وہ بھی دن تھے کہ تیری راج کماری میں تھی
ساری دنیا کو پتہ ہے کہ نہیں تم میرے
ساری دنیا کو پتہ ہے کہ تمہاری میں تھی