ملے اور بچھڑے جو میلے میں

ملے اور بچھڑے جو میلے میں

دنیا کا میلہ جس کو پروردگار نے فرما دیا کہ دنیا کی زندگی دھوکے کا سامان ہے۔ اس عارضی میلے میں آنے سے پہلے بتا دیا گیا تھا کہ دیا گیا وقت اور زاد راہ ضائع نہیں کرنا اس سے نیکی کا سودا خریدنا محنت میں نیکی بطور اجرت لینا جب واپس آؤ گے تو کامیاب قرار پاؤ گے اور جو لیا دیا ہو گا اسے واپسی پر موجود پاؤ گے۔ آخرت کی کرنسی نیکی ہے جس کے بدلے میں آخرت میں من پسند زندگی ملے گی اور بدی کا انجام ہرگز سہولت نہیں ہے۔ اس میلے میں اترنے سے پہلے ہی مقدر کے سانچے میں انسان مقید ہوتا ہے۔ یہ میلہ بات کی وضاحت کے لیے ہے جیسے کھمب کا میلہ، وساکھی کا میلہ، میلہ چراغاں، نوٹنکیاں، سرکس، سینما، امریکہ میں ڈزنی لینڈ، دنیا کے مختلف ممالک، شہروں، قصبوں میں لگنے والے وقت مقررہ تک ہوتے ہیں ایسے ہی پروردگار نے کہا کہ ہم نے ہر چیز کو ایک تقدیر کے ساتھ وقت مقررہ تک پیدا کیا ہے، اس کے بعد اس کو فنا ہے۔ میں صرف انسانوں کی تقدیر سمجھتا تھا مگر ہر چیز کی تقدیر اور وقت مقررہ ہے۔ ہر میلے میں فسادیوں کے لیے سخت ترین قوانین ہوا کرتے ہیں۔ یہی فرمان ہے کہ فساد نہیں کرنا کیونکہ انسان کی تخلیق پر اعتراض ہی یہ تھا کہ فساد کرے گا۔ مگر رب کریم نے کہا جو میرے بندے ہیں وہ نہیں کریں گے۔ آپ دیکھ لیں ہر غلطی اور گناہ کا انجام ساتھ بندھا ہے مگر فساد کبھی خیر کے انجام سے ملاقات نہیں کر پاتا۔ دنیا کے میلے میں آنے کے اوقات انسانوں کے صدیوں، سال اور مقام ممالک شہروں اور قصبوں کے اعتبار سے مختلف رہے مگر معمول وہی رہا۔ ہر انسان کا اس دنیا میں آنا مقدر کے تابع ہے۔ آقاؐ کے دور میں آنے والے مسلمان اور کفار اس سے پہلے، اس کے بعد آج جو کہ قانونی جمہوری اور بین الاقوامی گاؤں کا دور ہے۔ انسان مربوط ہیں اطلاعات عام ہیں کچھ اللہ نے یورپ، امریکہ، سعودیہ، عرب ممالک، سیکنڈے نیوین ممالک بھیج دیئے کچھ افغانستان اور پاکستان میں آ گئے، کچھ دنیا کے میلے میں آ کر تھیٹر اور نوٹنکی اپنی پسند کی بنیاد پر بدل کر ہجرت کرتے رہے۔ دنیا ایک ٹرین ہے جہاں مسافر اترتے اور چڑھتے چلے جا رہے ہیں، بند مٹھی میں مقدر کے ساتھ آتے ہیں اورمقدر بھگتا کر کھلی مٹھی کے ساتھ چلے جاتے ہیں ایک سٹیشن پر چڑھے اور دوسرے پر اتر گئے۔ ایک ان دیکھی مخلوق پرواز کی صورت اترتی اور دنیا کا میلہ دیکھنے والوں میں سے کبھی پوری قوم، کبھی پورے معاشرے، افراد یا فرد کو اچک کر لے گئی۔ جو کمایا جو 
کرنسی تھی ساتھ اٹھائی اور لے اُڑی۔ ہر انسان ایک داستان ہے ایک کہانی ہے اس کی اپنی دنیا اور کائنات ہے، اس کا اپنا میلہ اور اپنے لوگ ہیں۔ جیسے میں میلے میں آیا تو نانا نانی کے علاوہ میری دادی، ابا جی، اماں جی، اعظم بھائی، معظم بھائی، گلزار بھائی اور باجی پہلے ہی میلے میں موجود تھے پھر ذوالفقار، بابر، بہن آ گئیں، ہمارامیلہ سج گیا۔ پھر  بچے بھی آ گئے مگر ان دیکھی پرواز اتری جو دادی، اماں جی، ابا جی، معظم بھائی پھر اعظم بھائی کو اچک کر لے گئی، گویا میلہ اجڑ سا گیا۔ والدین نے میلہ کیا دیکھنا ہوتا ہے وہ تو اپنے بچوں کے لیے سامان کرتے رہتے ہیں اور تھک چور ہو کر غائب ہو جاتے ہیں۔
اس میلے میں جو خاندانوں سمیت ملے محمد سعید بھٹی، ایوب خان (ایوب تھانیدار) خواجہ افضل، سعید الرحمان بخاری، ابرار بھٹی، اصغر بٹ (لاہور بلال گنج) جاوید رحمت بٹ، شیخ خورشید، چاچا فیضی، چاچا بلو گھنٹہ گھریا(وڈا)، نسیم بٹ (ریلوے کاکا پہلوان)، باؤ کاشف، خواجہ منصور چاچا سودا پہلوان، جناب استاد اسحاق پہلوان، ایس پی زکی شاہ، ایس پی چودھری مشتاق، فلم سٹار اقبال حسن، ببو برال، امان اللہ خان، اعظم موٹا، جناب قاری محمد عبدالوہاب صدیقی، جناب خواجہ جاوید ایڈووکیٹ، جسٹس امیر عالم خان، ارشد میر ایڈووکیٹ، سید سردار عالم، حسین کاظمی صاحب کے علاوہ رسول بخش پلیجو، عرفان کامریڈ بھی ملے، گویا بہت سے جانثار حاسد اور منافق بھی ملے،میلہ خوب سجا مگر ان دیکھی پرواز آئی اور ان کو باری باری اچک کر لے گئی یہ لوگ جو میلے میں بچھڑے، ہمارا میلہ تو شام غریباں میں بدل گیا۔ سب کچھ پھر بھی چل رہا تھا مگر اعظم بھائی (پا جی اعظم صاحب) کے میلہ چھوڑ کر جانے سے خدمت خلق پر مشتمل چار دہائیوں سے زائد ایک شاندار عہد بہترین یادوں کے ساتھ مکمل ہوا۔ دنیا اور میلہ ماتم میں بدل گیا مگر جب ارد گرد دیکھا تو ہر خاندان کو سانحات سے دوچار پایا۔جو موجود ہیں اللہ کریم سلامتی اور عافیت میں رکھے اور نئے آنے والوں کے ساتھ رب کی دنیا کا یہ میلہ اس کے حکم کے مطابق دیکھنے کے لیے دی گئی مہلت و دولت خرچ کرنا نصیب ہو۔ گوجرانوالہ کے حافظ انجم سعید معروف قانون دان اور صاحب اسلوب شاعر حساسیت کے سفیر ہیں ان کا کلام جو دل سے لکھتے، کہتے ہیں سن کر دل کو سہارا دیتا ہے کیونکہ ان کی شاعری دلوں کی عکاس ہے۔ ان کی شاعری میں پایا جانے والا طاقچہ بہت سے دلوں کا سامان اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے یا پھر ان کا یہ درد بھرا طاقچہ پڑھنے والوں کے دلوں میں رکھا پڑا ہے غرض کہ قبلہ حافظ صاحب کی شاعری قبلہ محمد صادق صاحب ڈائریکٹر جنرل کسٹم کا تصوف زخمی روحوں کے لیے غذا ہے جس نے مجھے سہارا دیا۔ اللہ قائم رکھے اور باوقار رکھے گلزار بھائی نے خاندان کو اس میلے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ رب کریم یہ حصار قائم رکھے، لکھنا تو کچھ اور تھا پھر ہمدم دیرینہ برادرم اورنگزیب بٹ (دانیال ایجنسی) کی والدہ محترمہ کو ان دیکھی پرواز نے میلے سے اچک لیا۔ انتہائی نیک سیرت خاتون تھیں، اورنگزیب بٹ کے میلے کی روح رواں تھیں، چلی گئیں۔ اب غم ہے، جدائی ہے، اداسی ہے اور ان کا خاندان ہے، یہ سب کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ درد کی دولت مجھے والدین کے بعد اپنے بڑے بھائیوں اور خصوصی طور پر گلزار بھائی نے عطا کی۔ قابل احترام شخصیات میں جناب حافظ انجم سعید اور قبلہ محمد صادق (چیف کلکٹر کسٹم) سے عطا ہوئی۔ ایوب اولیا کا کلام
یہ ترانہئ محبت کسی ایسی لے میں گاؤ
کبھی بن پڑے تو مطرب مجھے گیت وہ سناؤ
جسے سن کے میں بھی تڑپوں جسے گا کے تو بھی روئے
بھرے سسکیاں ہوا بھی، جلیں آگ کے الاؤ
وہ حسین صورتیں تھیں جو چلی گئیں جہاں سے
انہیں یاد کر کے گاؤ، انہیں گا کے اب بلاؤ
میں رہینِ غم نصیبی، میں امینِ غم پرستی
میرا دل غموں کا دریا، اسے تیر کر تو جاؤ
وہ بچھڑ گئے ہیں ہم سے، تو ذرا بھی غم نہیں ہے
یہ دعا ہے سر بسجدہ، میرے مولا! پھر ملاؤ
یہ ہے سانس آنی جانی، یہ نفس ہے جان! فانی
جن سے میلہ اب بھی آباد ہے اللہ کریم ان کو قائم رکھے اور بچھڑے جو میلے میں رب العزت ان کو بغیر حساب کتاب کے جنت النعیم میں داخل فرمائے۔ بچھڑے جو میلے میں کبھی دل اداس، اچاٹ ہو جائے تو دل چاہتا ہے کہ آنکھیں بند کر لیں وہ منظر شاید خواب ہو مگر نہیں اس دنیا کا بھید کوئی نہیں پا سکا۔
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معما نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ برافتند نہ تو مانی و نہ من
اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے نہ میں، اور یہ حرف معما نہ تو نے پڑھے ہیں نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے اور جب پردہ اٹھے گا تو نہ تُو ہو گا اور نہ میں۔