سرابِ یاس کی آمد نہیں ہوتی

سرابِ یاس کی آمد نہیں ہوتی

اگست قریب آ رہا ہے۔ پاکستان کا پچھترواں یومِ آزادی ڈائمنڈ جوبلی کی حیثیت سے منانے کے تذکرے ہیں۔ فرد کی زندگی میں 70 کے بعد تدبر، ٹھہراؤ کے ساتھ بہرطور قویٰ کا اضمحلال بھی نتھی ہے، الاماشاء اللہ۔ بعض طبیعتیں بچپنے کی طرف مائل ہوتی ہیں، کھیلن کو چاند مانگنے کی ضد لگا سکتی ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں 75 سال پختگی، قرار واستحکام، اعلیٰ تر مقاصد اور ترقی کے آئینہ دار ہوا کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں نبوت کے سو سال کے اندر اسلامی مملکت تین براعظموں تک شاندار استحکام کے ساتھ پھیل چکی تھی۔ 610ء میں نبوت سے لے کر 711ء میں محمد بن قاسمؒ قیام پاکستان کا بیج بو گیا تھا، ہندوستان فاتحانہ آمد پر۔ 712ء میں شمالی افریقہ کے گورنر موسیٰ بن نصیر کی فوج طارق بن زیاد کی سرکردگی میں فتوحاتِ یورپ کے لیے اسپین پر جا اتری، جہاں 800 سال تک مسلمانوں نے حکمرانی کی۔ یہ اسلام کا اعجاز تھا۔ اللہ کے فرمان پر عمل پیرا ہوکر: ’اس قرآن کو لے کر کافروں کے ساتھ زبردست جہاد کرو۔‘ (الفرقان۔ 52) وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر، اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر! آج ہم ہمہ تن باہم دگر برسر پیکار ہیں۔ گھروں میں لڑائیاں، خاندانوں، اداروں، سیاست دانوں میں لڑائیاں۔ اپنے بھائی کے مقابل کبر سے سے تن جائیے۔ ہم آج بھی پاکستان تباہ کرنے کی قیمت پر تنے کھڑے ہیں۔ اور اس طنطنے میں ملک پر کیا بیت رہی ہے نہ خبر ہے نہ پروا۔ کرسی کا نشہ مہلک ترین ہے جو چہار جانب سے غافل کر ڈالتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ملک کی چولیں ہلا رہا ہے۔ للکاروں میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ ستر برس کے ایک بڑے میاں سری لنکا والے تیل/ پیٹرول کی بوتل تھامے، ہاتھ میں پکڑی تیلی سے آگ لگانے کی دھمکی سے بڑے بڑوں کا پتہ پانی کرتے رہے ہیں۔ کیا راز ہے کہ سبھی اداروں کو للکارنے کے باوجود سبھی کی سٹی گم رہی ہے۔ نہ توہینِ عدالت ہوئی، نہ بکتر بند گاڑیاں نکلیں، نہ پولیس جگہ سے ہلی ۔ (یہ ضرور ہے کہ خوفناک دھمکیوں کے تناظر میں فوری تبادلے ہوئے!) ماحول یہ رہا کہ: آٹھ دس کی آنکھ پھوٹی، آٹھ دس کا سر کھلا، تو خطیبِ شہر کی تقریر کا جوہر کھلا! یہ دور ہم کراچی میں بھگت چکے ہیں۔ اس خطابت پر کوئی ازخود نوٹس نہیں۔ گزرے برسوں میں خاموشی سے یہ نظارہ رہا۔ مروت، لحاظ، تہذیب شرافت بالائے طاق رکھ کر حیاسوز بدزبانی، بداخلاقی، گالی گلوچ، نفرت اور جھوٹ پر قوم کو رواں کر دینے کے سوا کیا ہاتھ آیا۔ ڈوبتی معیشت اور اس پر چور مچائے شور کے بگولے ہر ذی شعور کے حواس مختل کرتے رہے ۔ اب بھی وقت ہے کہ قانون کی آئے دن الٹ بازیاں کھاتی تشریحات پر بریک لگاکر یکساں قانون کا اطلاق اپنے پرائے سبھی پر ہو۔ ان جھکڑوں میں معیشت جو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر ہے، اس کی سانسیں رک رہی ہیں۔ ملک کا استحکام اور وقار مقدم ہے۔ یہ ہوگا تو کرسیاں بچیں گی۔ دھمکانے کی سیاست کو لگام نہ دی گئی تو دگرگوں جمہوریت، سدا ’دھمکی جمہوریت‘ ہی کا روپ دھارے گی۔ اس عفریت سے کون نمٹے گا؟ انصاف کے دوہرے معیار کی بجائے کٹہرے میں سبھی کو یکساں طور پر کھڑا کرکے پہلے ملکی حالات اور معیشت کا سدھار، زباں بندی لاگو ہو۔ دودھ سے دھلا کوئی بھی نہیں۔جسٹس(ر) جاوید اقبال (نیب) کااخلاقی المیہ سامنے ہے۔ انصاف کا لبادہ اوڑھ کر بے چارگی پر نقب لگانے کا المیہ! پناہ بخدا۔ سبھی شیشے کے گھروں میں رہتے ہیں۔ کوئی بھی 
پاک نہیں جو پہلا پتھر مارے۔ 300 کنال کے سرسبز وشاداب سبزہ زاروں میں امراء روسا کو للکارنے والا ہو یا ملک وغیرممالک میں جائیدادوں والے۔ یہ ہاتھیوں کی لڑائی میں 22 کروڑ چیونٹیاں پس رہی ہیں۔ کھوکھلی جذباتیت کے ساتھ عوام الناس ملک کو سری لنکا بنانے کے بیانیے کے اسیر ہوئے بے خبر (جنوں بھوتوں والے) سحر کے پیچھے منہ اٹھائے صرف سوشل میڈیا کی رہنمائی میں بے سدھ بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ اس بھیڑ میں اکثر یا بیرون ملک کے نیم پاکستانی، متوالے ہیں یا وہ سب جو معیشت کی گمبھیرتا ، ریکارڈقرضہ جات سیاسی عدالتی دلائل سے بے بہرہ ہیں۔ یہ ملک سے خیرخواہی ہے کیا؟ اتنے یقین سے سری لنکا کی دھمکی ظاہر کرتی ہے کہ خانہ جنگی کی پلاننگ کیے بیٹھے ہیں۔ ملک میں دو قسم کے مقدمات میں فیصلہ فوری ہوتا ہے۔ شادیاں ختم کرانے کے مقدمات میں، اور عمرانی سیاسی مقدمات میں فی الفور کی پسوڑی پڑ جاتی ہے۔ ورنہ دادا کے مقدمے کا فیصلہ پڑپوتے تک کا انتظار کراتا ہے۔ آدھے ملک کی معیشت تو جمہوریت چاٹ جاتی ہے۔ انتخابی عمل پر جمہور کا پیسہ پے درپے انتخابات، ضمنی انتخابات، بلدیاتی انتخابات میں لٹایا جاتا ہے۔ انفرادی سطح پر رزق حلال سے گھوڑوں کی خرید وفروخت (بنام ہارس ٹریڈنگ) کیونکر ممکن ہے۔ (زر، زمین والے نے اگرچہ پے درپے صرف خط چلا کر اکثریت کو اقلیت میں بدل ڈالنے کا شعبدہ دکھایا۔ واہ جمہوریت کہیے یا آہ جمہوریت!) چالیس، پچاس کروڑ سے کم کی بات نہیں ہوتی! اس نظام میں تو دونوں اطراف، حکومت اپوزیشن ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پہلے منتخب ہونے کی صلاحیت/ پیسہ (Electables) کے نام پر جو ہانک ہانک کر پی ٹی آئی میں لائے گئے وہ امانت ودیانت، حق کی سیاست، قومی مفادات اور نظریے کا کون سا پیمانہ تھا؟ یہی طبقہ پھر اپنی قیمت لگواتا ہے۔ 
جس کی لاٹھی ہے اسی کی بھینس ہوگی دیکھنا
 بھینس کا مالک پتیلا مانجھتا رہ جائے گا
ادھر ہمارے یہ حالات چل رہے ہیں۔ پورا ملک ہمہ وقت ایک شش وپنج کے عالم میں ہچکولے کھاتا، بے یقینی کے خرابوں میں بھٹک رہا ہے۔ نجانے اگلا لمحہ کیا لائے۔ کون سا فیصلہ دھمک پڑے۔ ادھر کشمیریوں کی ہم سے خوش گمانیوں کی انتہا دیکھیے۔ 19 جولائی کو انہوں نے یوم الحاق پاکستان کس جوش وجذبے سے منایا! ریلیاں، جلسے جلوس۔ اللہ انہی کی مظلوم، بے لوث اور خوش گمان محبت سے ہمارے اعمال کی کمزوریاں دور کرکے ہمارے مقدر میں خیر بھر دے۔ (آمین)
بائیڈن کے دورۂ سعودی عرب کے دوران امریکی شہریت کا حامل اسرائیلی یہودی صحافی خاموشی سے حج کے موقع پر شرعی (اور سفارتی) قوانین توڑتے ہوئے مقامات حج کا دورہ کرتا رہا۔ اسرائیلی چینل ’13نیوز‘ پر عرفات ودیگر مقامات کی رپورٹ نشر کردی۔ نحوست زدہ چہرے پر مسکراہٹ، بھرپور کمینگی کا تاثر لیے، سعودی سوشل میڈیا کو آگ بگولہ کر گئی۔ جانتے بوجھتے برملا اقرار کے ساتھ، قانون کی خلاف ورزی کرنے کے بعد معافی مانگ کر بری الذمہ ہوگیا کہ میں تو صرف مکہ کی خوبصورتی اور اس کی اہمیت دکھانا چاہتا تھا! تاہم سعودی سوشل میڈیا کو اس کی معذرت ٹھنڈا کرنے میں ناکام رہی۔ اس کا سعودی ڈرائیور عوام کے غم وغصے کے پیش نظر گرفتار کرکے اس واقعے کی مذمت کر دی گئی۔ یاد رہے کہ 21 نومبر 2017ء میں اسی طرح ایک اسرائیلی یہودی، عرب حلیے میں مسجد نبویؐ میں سیلفیاں بناتا گھوم پھر کر گیا۔ بغل میں یہودی مذہبی تھیلا عبرانی تحریر لیے، (جو کٹر یہودی ہمراہ رکھتے ہیں) اس نے تصاویر اسی طرح فیس بک پر دکھاکر مسلمانوں کو چڑایا تھا۔ عرب دنیا میں شدید غم وغصے کا اظہار اس وقت بھی کیا گیا۔ مسلم عوام ایمانی جذبات کے حوالے سے بحمدللہ آج بھی لبریز ہیں!
امریکا اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں تو تھا ہی، کیلی فورنیا میں بہت بڑی آگ بھی تیزی سے بڑھ پھیل رہی ہے۔ جنوبی یورپ الگ آگ کے ہاتھوں بڑی آبادی کے انخلا پر مجبور ہے۔ گرمی کی لہر مزید یورپ بھر کو شدید مسائل سے دوچار کیے ہوئے ہے۔ موسمیاتی بلائیں، گرمی اور تیز ہواؤں سے پھیلتی آگ یونان، اٹلی کے لیے بلابنی کھڑی ہے۔ امریکا میں موسمیاتی ایمرجنسی کا نفاذ بوسٹن سے واشنگٹن تک کردیا گیا ہے۔ درجن بھر ریاستوں کو گرمی سے نمٹنے کے لیے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ اس وقت تپش سے امریکا بھر میں اموات ہو رہی ہیں۔ زمینی آبادیوں کو اسلحے کی آگ سے بھوننے والے اب مکافاتِ عمل کی ہمہ پہلو زد میں ہیں۔ جابجا فائرنگ کے واقعات اور ’فائر‘ (آگ) سمیت موسمی آگ کا برسنا! اسرائیل کی فلسطینیوں پر مظالم پر پیٹھ ٹھونکنے والوں کو مظلوم آہوں کے دھوئیں اور تپش کا سامنا ہے۔تاہم:
دہکتے ریگ زاروں میں بھی یاں ہرگز
سرابِ یاس کی آمد نہیں ہوتی
یہ لے کر آس آتی ہے