ن لیگ کو   گھر کی لونڈی بنایاگیا تو شاید پارٹی سے بھی رشتہ نہ رہے:چودھری نثار

ن لیگ کو   گھر کی لونڈی بنایاگیا تو شاید پارٹی سے بھی رشتہ نہ رہے:چودھری نثار
کیپشن: chaudhry nisar ali khan media talk

 اسلام آباد: سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار  نے کہا ہے کہ  ن لیگ کو   گھر کی لونڈی بنایاگیا تو شاید پارٹی سے بھی رشتہ نہ رہے، اب نواز شریف سے وہ روابط نہیں رہے ، میرے ٹکٹ کا فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیر داخلہ چودھری نثار نے اپنے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ مسلم لیگ ن کو گھر کی لونڈی بنایا گیا تو شاید پارٹی سے بھی رشتہ نہ رہے ، اب سابق وزیر اعظم نواز شریف سے وہ روابط نہیں رہے ، میرے ٹکٹ کا فیصلہ پارٹی نے کرنا ہے ۔

انھوں نے کہا کہ میں نے الیکشن کس پارٹی کے پلیٹ فارم سے لڑناہے یہ فیصلہ میں نے کرناہے اور بہت جلد یہ فیصلہ کروں گا کہ کس پلیٹ فارم سے الیکشن لڑوں۔عمر ان خان سے میری ذاتی دوستی رہی ہے سیاسی تعلق نہیں رہا اور گزشتہ ساڑھے 3سال سے عمران خان سے براہ راست یا بلواسطہ کوئی رابطہ نہیں۔

عمران اور زرداری کا سیاسی طورپر ہاتھ ملانا اچھا شگون ہے جب کہ میری اور آصف زرداری کی سیاست بہت مختلف ہے اگر نظریات ملتے ہوں تو ایک جگہ بیٹھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ،  ن لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے لندن قیام سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ، شہباز شریف صرف اپنی خرابی صحت کی وجہ سے لندن میں موجود ہیں  جب کہ مجھے خدشہ ہے شہبازشریف کو کام کرنے کا مینڈیٹ اور گنجائش نہیں دی جائے گی، پارٹی صدارت کے بعد انھیں کام کرنے کا مینڈیٹ دیاگیا تو کئی امور میں بہتری آ سکتی ہے۔

وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات پر ردعمل دیتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات سے ابہام دور نہیں ہوئے بلکہ اضافہ ہوا،ملاقات کا مقصد اگر اداروں میں نرمی پیدا کرنا تھا تو میں ایک سال سے یہی بات کررہا ہوں اگر یہ راستہ اختیار کرلیا جاتا تو اس ملاقا ت کی ضرروت نہ پڑتی جب کہ حکومت اور سپریم کورٹ شکوک شبہات دور کرنے کے لیے مل کر قدم اٹھانا چایئے۔

چوہدری نثار نے وزیراعظم کے دورہ امریکا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کی امریکی نائب صدر سے ملاقات کامقصد منفی امریکی بیانیہ کی تشہیر ہے  ، مجھے وزیراعظم اور امریکی نائب صدر کی ملاقات کا مقصد سمجھ نہیں آیا، ہمیں امریکی حکام کو یہ موقع نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہماری قیادت کو لیکچر دیں اوریکطرفہ مسلط کردہ امریکی بیانیہ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔