سیاست اخلاقیات نہیں مفادات کا کھیل

سیاست اخلاقیات نہیں مفادات کا کھیل

پاکستان میں سیاست اخلاقیات نہیں مفادات کا کھیل ہے اور اس وقت تمام جماعتیں ملک و قوم کا نام لے کر اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں تو پھر ایک دوسرے سے شکایت کیسی ایک دوسرے کو اخلاقیات کے سبق اور ،ضمیر فروشی کے طعنے کیوں دیے جا رہے ہیں۔وطن عزیز کی سیاست میں جو کچھ آجکل چل رہا ہے یہ کوئی نیا نہیں2018کے انتخابات سے پہلے کپتان روز وکٹ گرانے کا اعلان کرتے تھے اور جو ان کی جماعت میں شامل ہو رہے تھے وہ کوئی ضمیر کی آواز پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے آ رہے تھے اور جب آج انہیں نظر آ رہا ہے کہ ان کے مفادات کا تحفظ اب تحریک انصاف میں نہیں ہو سکتا تو انہوں نے یہاں سے بھی کوچ کا نعرہ لگا دیا ہے ،اگر یہ اب ضمیر فروش ہیں تو تب بھی ضمیر فروش تھے۔سیاسی جماعتوں کو چاہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہ لیں جو قابل اعتبار نہیں اور موقع پرست ہیں لیکن یہاں سیاسی جماعتوں کی مجبوری ہے کہ انہیں ہر حال میں اقتدار چاہے وہ چاہے پھر لوٹوں اور ضمیر فروش کو شامل کر کے ہی کیوں نہ ملتا ہو،کپتان نے بھی کہا تھا کہ یہ ہی لوگ نظام میں میسر ہیں وہ فرشتے کہا ں سے لائیں تو جب اچھے لوگوں کا انتخاب نہیں کر سکے تو پھر اس نظام میں تو ایسے ہی ہوتا رہا ہے اب بقول شاعر بہتر ہے کہ 
جانے والے کو نہ روکو،کہ بھرم رہ جائے 
تم پکارو بھی تو،کب اس کو ٹھہر جانا ہے 
جب اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کوششیں شروع ہوئیں تو حکومت نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا وزیر اعظم تو کہتے تھے میری دعا قبول ہو گی ہے۔ حکومت ضرورت سے زیادہ پر اعتماد رہی اور جس وقت انہیںاس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہے تھا ان کے وزراء روایتی بیانات دینے میں مصروف تھے اور جب پانی سر سے اونچا ہوا تو اب سب بھاگتے پھر رہے ہیں۔سیاست میں ٹائمنگ کی بڑی اہمیت ہے حکومت بر وقت درست فیصلے نہیں کر سکی اور حکومت کی یہ بات بھی درست نہیں کہ وہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گے ،بیانات تک جو مرضی کہیں لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ سب بلیک میل ہو رہے ہیں۔مسلم لیگ ق نے جب وزارت اعلی مانگی تو حکومتی وزراء طنز کرتے کہ پانچ سیٹوں والے وزارت اعلی مانگ رہے ہیں تو جواب آیا کہ اگر ایک سیٹ والا وزیر داخلہ ہو سکتا ہے تو پانچ سیٹوں والا وزیر اعلی کیوں نہیں، ان سب تند و تیز جملوں کے باوجود پانچ سیٹوں والے پرویز الہی کو حکومت نے پنجاب کا وزیر اعلی نامزد کیا۔جن سے بلیک میل نہیں ہونا تھا ان سے بیک ڈور کے ساتھ کھلے رابطے بھی شروع کر دیے سب کے تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں یہ بلیک میل ہونا نہیں تو اور کیا ہے اگر تحریک عدم اعتماد نہ آئی ہوتی تو کیا تب بھی ارکان اسمبلی کے تحفظات کو ایسے ہی دور کیا جاتاجس طرح اب یقین دہانیاں کرائی جا رہی ہیں۔راقم نے آٹھ مارچ کو ٹویٹ کیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت قربانی مانگتی ہے ،دیکھیں کپتان کس کا سر قربانی کے لیے پیش کرتے ہیں پر یہ طے ہے کہ اب قربانی کمزور نہیں پالے ہوئے بکرے کی چلے گی اور پھر وہ وقت آیا کہ عثمان بزدار کی قربانی دینے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ بھول گے کہ قربانی کا وقت ہوتا ہے قربانی کے دن گذر جائیں تو پھر وہ قربانی نہیں رہتی۔عثمان بزدا رجن کو عمران خان وسیم اکرم پلس کہتے تھے جن کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے تھے اور پارٹی رہنما ؤں کی جانب سے تمام تر تحفظات کے باوجود عمران خان ہمیشہ عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے رہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اتنے ہی اچھے وسیم اکرم پلس تھے تو انہیں مائنس کیوں کیا ؟آپ نے تو بلیک میل نہیں ہونا تھا لیکن وقت پڑا تو پلس کو مائنس کر کے قربانی دی گئی۔شیخ رشید کا معروف جملہ قربانی سے پہلے قربانی ہو گی اور اس بار حکومت نے اپنے وزیر اعلیٰ پنچاب کی قربانی دے دی لیکن وہی بات کہ قربانی سے پہلے قربانی کا ثواب نہیں ہوتا اس کے لیے دن مقرر ہیں ،یہی وجہ ہے کہ عثمان بزدار کی قربانی سے جو فائدہ حکومت اٹھانا چاہ رہی ہے وہ انہیں نہیں ملا۔
چوہدری پرویز الہٰی نے اپوزیشن کی بجائے حکومت کی آفر قبول کر لی اور اس کی وجوہات بھی بتا دیں لیکن مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم اور باپ میں یہ طے ہوا تھا کہ سب ایک فیصلہ کر کے مل کر اعلان کریں گے جب چوہدری پرویز الہٰی نے وزارت اعلیٰ پنجاب بننے کی آفر دیگر کو اعتماد میں لیے بغیر قبول کرکے آصف زرداری ، ایم کیو ایم اور اپوزیشن کو حیران کیا تو جواب میں زرداری ،اپوزیشن اور ایم کیو ایم نے مل کر حکومت اور چوہدری پرویز الہٰی کو پریشان کر دیا۔اس وقت نمبر گیم میں اپوزیشن کو حکومت پر برتری حاصل ہے لیکن گیم آخری گیند تک آن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں فرشتے نہیں کس کا ضمیر کب جاگ جائے اور آخری وقت میں کون کس کے ساتھ کھڑا ہو جائے کچھ پتہ نہیں۔
کپتان کو چاہے کو وہ کسی کے مشوروں کی بجائے اب خود فیصلے کر یں، وہ کہا کرتے تھے کہ جب وہ میچ ہار جاتے تو لوگوں کے تبصرے نہیں پڑ ھتے تھے کیونکہ وہ کرکٹ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے تھے وہ اپنی غلطیوں پر خود غور کرتے تھے اب بھی انہیں چاہے کہ آج حکومت جس بحران سے گذر رہی ہے وہ اس پر خود غو ر کریں تو انہیں سمجھ آ جائے گی کہ وہ کیوں ان مشکلات کا شکار ہوئے۔ذاتی رائے میں سمجھتا ہوں کہ جو حکومت آتی ہے اس کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہے اور عوام کو شفاف اور غیر جانبدار الیکشن میں موقع دینا چاہے کہ وہ اپنی قیادت منتخب کریں لیکن افسوس سیاستدانوں نے جمہوریت کو کبھی حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے کی کوشش نہیں کی سوائے بیانات تک یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت لوٹے قبول کر لیتی ہے ،لوٹا جس جماعت میں جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ضمیر جاگ گیا اور جس جماعت سے جاتا ہے وہ اس کو ضمیر فروش کہ دیتے ہیں اور اب بھی یہی سلسلہ جاری ہے۔

مصنف کے بارے میں